(مثنوی)
مجھ کو پہچان لو میں پانی ہوں
پانی
مجھ کو پہچان لو میں پانی ہوں
نعمت باغ زندگانی ہوں
مجھ سے خالی نہیں کوئی گوشہ
میرا چلتا ہے ہر جگہ سکہ
سب کے لب پر مری کہانی ہے
جو بجو میری حکمرانی ہے
کبھی دوش ہوا پر رہتا ہوں
اور کبھی میں زمیں پر بھتا ہوں
میرے قبضے میں ہے یہ ساری فضا
لوگ کہتے ہیں مجھ کو آب بقا
سب کو دیتا ہوں حسن و زیبائی
میرے دم سے ہے رنگ و رعنائی
میں نہ ہوتا تو جانے کیا ہوتا
رنگ عالم ہی دوسرا ہوتا
پھول کھلتے نہ گلستاں ہوتا
باغ ہوتا نہ بوستاں ہوتا
کھیت اگتے نہ خاک نم ہوتی
نہ زمین روکش ارم ہوتی
کتنے گلشن سجا دئے میں نے
کتنے شعلے بجھا دئے میں
جب برستا ہوں من کے ابر بہار
نے لہلہاتے ہیں وادی و کہسار
اور جب مجھ کو جوش آتا ہے
میرا ہر قطرہ قہر ڈھاتا ہے
بستیوں عاشوره کو اجاڑ دیتا ہوں
کھیل سارے بگاڑ دیتا ہوں
مثل سیماب میری فطرت ہے
اضطرابی مری طبیعت ہے
گنگناتا ہوں میں مشینوں میں
رقص کرتا ہوں آب گینوں میں
کون ہے جس کو میری چاہ نہیں
کس کا میں مطمحِ نگاہ نہیں
بے نواؤں کی دل دہی کی ہے
کتنے پیاسوں کو زندگی دی ہے
تھی معراج میری قسمت کی
انیار تک کی میں نے خدمت کی
لیکن افسوس یومِ عاشورہ
فرض اپنا نہ کر سکا پورا
آج تک اس پہ شرمساری ہے
رنج و اندوہ مجھ پہ طاری ہے
بن کے آنسوں حسین کے غم میں
اب برستا ہوں بزمِ ماتم میں
من کے آنسو حسین کے غم میں
ختم ہو گی نہ میرے دل کی کسک
مجھ سے زہرا نہ ہوں گی خوش جب تک
ختم ہو گی نہ میرے دل کی کسک
تم کو اے مومنین اہلِ وفا
میں سناتا ہوں اپنا اک قصہ
جب کہ ماضی میں نوح کی امت
ہو گئی مست بادۂ نخوت
کر دیا دین حق سے جب انکار
لڑنے مرنے پہ ہو گئی تیار
نوح نے لاکھ لاکھ سمجھایا
جب کسی نے پیام حق نہ سنا
اٹھ گئے ہاتھ بد دعا کے لئے
سارے کفار کی سزا کے لئے
اٹھا میں قہرِ کبریا بن کر
کر دیا پھر زمیں کو زیر و زیر
کربلا میں بھی مجھ کو تھا یہ گماں
دلبر فاطمه شهر ذیشان
قوم بے رحم و بے وفا کے لئے
ہاتھ اٹھائیں گے بددعا کے لئے
پھر تو میں من کے ایک سیل بلا
مر کر دیتا ظالموں میں بیا
لشکر ظلم کی تباہی کی
دل میں حسرت تھی پر نہ پر آئی
سچ فرزند فاطمہ زہرا
ہے نگہباں نبی کی امت کا
اے محبانِ بادشاہ غریب
سنئے اک اور داستان عجیب
کر رہا تھا نبی کا نورِ نظر
جب مدینہ سے کربلا کا سفر
قافلہ پہنچا جب قریب شراف
بولے سقا سے صاحب الطاف
لو کا موسم ہے ، سخت گرمی ہے
اور راہ سفر بھی لمبی ہے
ساتھ میں ننھے ننھے بچے ہیں
گھر سے جو پہلی بار نکلے ہیں
تپتے صحرا میں پھر ملے نہ ملے
بھر لو پانی سے اپنے مشکیزے
ذو حشم کی پہاڑیوں کے قریب
پہنچے جس وقت دینِ حق کے نقیب
حر کی فوج آ کے سدِ راہ ہوئی
مائل جنگ سب سپاہ ہوئی
دشمنوں کو حسین نے دیکھا
پیاس سے غیر حال تھا ان کا
دھوپ سے تھے اڑے اڑے چہرے
گرد آنکھوں کے تھے پڑے حلقے
ضعف سے پاؤں لڑکھڑاتے تھے
پیاس سے ہونٹ کپکپاتے تھے
چہرہ اک اک شقی کا اترا تھا
پیاس کا وہ شدید غلبہ تھا
خشک ہونٹوں پہ پھیرتے تھے زباں
نکلی جاتی تھی جیسے جسم سے جاں
دیکھ کر اضطراب لشکر کا
جوش میں آیا رحم سرور کا
وہ تو تھا ہی کریم ابن کریم
کیوں نہ کرتا بھلا وہ لطف عمیم
تیر و شمشیر پر ، نہ بھالوں پر
اسکی نظر میں تھیں لیے چھالوں پر
حکم شہ نے دیا یہ اکبر کو
بیٹا پانی پلاؤ لشکر کو
لے کے مشکیزے اکبر و عباس
پہنچے فی الفور دشمنوں کے پاس
پیاس سے ہو رہے تھے جو بے تاب
فيض شبیر سے ہوئے سیراب
یہ تھی شان امام فخر امم
کرتے تھے دشمنوں پر لطف و کرم
لیکن افسوس کربلا میں وہی
ہو گئے تھے شکار تشنہ لبی
سننے والو یہ داستان الم
مجھ کو مت کوسنا براہِ کرم
میں تھا مجبور ورنہ جان نبی
کیا مری نذر کو ترس جاتی
حلقۂ جو میں میں تڑپتا تھا
موج بن بن کے سر پٹکتا تھا
دل سے رہ رہ کے ہوک اٹھتی تھی
موج انفاس تن میں گھٹتی تھی
کیا بتاؤں کلیجہ کہتا تھا
شدت غم سے سینہ پھٹتا تھا
بحر غم میں تھپیڑے کھاتا تھا
صدمے طوفان کے اٹھاتا تھا
دیدنی وہ میرا حال ذبوں
کوئی لمحہ قرار تھا نہ سکوں
آئے عباس جب لب دریا
کوئی لمحہ قرار تھا نہ سکوں
ہو کے خوش بَلّیوں اچھلنے لگے
گود میں نہر کی مچلنے لگا
میں بڑھا یوں کہ تھام لوں رہوار
اور ہو جاؤں اس جری پر نار
جوش الفت میں لے کے انگڑائی
میں نے خوش ہو کے گود پھیلائی
لے کے پانی چلا جو شیر جری
ہر طرف سے صدا یہ آنے لگی
دیکھتے کیا ہو ابن حیدر کو
گھیر لو گھیر لو دلاور کو
کی جو یلغار فوج اعدا نے
چھد گئی مشک کٹ گئے شانے
حیف ہے ، وہ حسین کا ناصر
ہو گیا عمل آپ کی خاطر
آج تک مجھ کو ہے ملال اس کا
اس کا تر کر سکا نہ خشک گلا
ہو گئی ایسی مجھ سے کوتاہی
تا قیامت رہے گی رسوائی
ایک دو کا اگر اہم ہوتا
غم کا کچھ بوجھ دل پہ کم ہوتا
پیاس سے جاں بلب ہوئے اکبر
ٹھنڈا میں کر سکا نہ اس کا جگر
بے زباں تیر سے شہید ہوا
پیاس اس کی مگر بجھا نہ سکا
جاں بحق تشنہ لب ہوئے انصار
اور میں دیکھتا رہا ناچار
خود رہے شاہ کربلا پیاسے
میں مگر آ سکا نہ دریا سے
اشقیاء نے جلا دیا خیمہ
لیکن اس کو بھی میں بجھا نہ سکا
ننہا کرتا جلا سکینہ کا
اور میں دور ہی سے تکتا رہا
مبتلا تھے بخار میں سجاد
میں مگر کر سکا نہ کچھ امداد
میری کوتاہیوں کے جب اسباب
پوچھیں گی فاطمہ بروز حساب
فکر اب ہے مجھے یہ صبح و شام
میرا محشر میں ہوگا کیا انجام
ان کو آخر جواب کیا دوں گا
جرم کا میں حساب کیا دوں گا
شاعر اہلبیتؑ : مختارؔ مبارکپوری
اگست ۱۹۸۴ء
حوالہ: کتاب - فرات کے پاس
صفحہ ٥١ | پانی -مثنوی
نوٹ: اہلبیت کی مدح میں کہے گئے کوئی بھی اشعار جو اس ویبسائٹ پر موجود نہ ہوں شامل کرنے کے لئے ہم سے رابطہ کریں۔
Contact Us: husainiclips@gmail.com