کربلا میں جان زہرا بے کفن رکھا گیا
کربلا میں جان زہرا بے کفن رکھا گیا
مہماں تھا اور وہ تشنہ دہن رکھا گیا
گذری ہوگی دل پہ کیا پوچھے کوئی شبیر سے
کس طرح سے قبر میں غنچہ دہن رکھا گیا
جس کے صدقے میں ہوا ہے سارے عالم کا وجود
کیا زمانہ ہے اسی کو بے وطن رکھا گیا
ظلم کی یہ انتہا ہے انتہا ہے انتہا
نوک نیزہ پر سر شاہ زمن رکھا گیا
ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا لاشہ حسن کے لال کا
سوچیئے کس حال میں وہ گلبدن رکھا گیا
ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا لاشہ حسن کے لال کا
سوچنے کس حال میں وہ گلبدن رکھا گیا
پرورش جس کی ہوئی ہے رحمتوں کی چھاؤں میں
کربلا کی دھوپ میں وہ خستہ تن رکا گیا
سونگھ لے صغریٰ بھی اپنے بے زباں یوسف کی بو
اس لیے اصغر کا شاید پیرہن رکھا گیا
مومنوں کے دیدہ پر آپ کو روکے گا کون
یہ وہ دریا ہے کہ جس کو موجزن رکھا گیا
رحمتوں کی پتیاں ہیں ڈالیاں ہیں پھول ہیں
دور کانٹوں سے شہ دیں کا چمن رکھا گیا
شکر ہے مختارؔ اس کا ماتم شبیر میں
غم سے آلودہ مرا رنگ سخن رکھا گیا
شاعر اہلبیت:علی مختارؔ مبارکپوری
نوٹ: اہلبیت کی مدح میں کہے گئے کوئی بھی اشعار جو اس ویبسائٹ پر موجود نہ ہوں شامل کرنے کے لئے ہم سے رابطہ کریں۔
Contact Us: husainiclips@gmail.com