.com/img/a/

Madh e Ahlebait

20230721_225936

اتوار، 30 جولائی، 2023

اسلام اک نظام معبد ہے دوستو | Islam ek nezam e moabbad hai dosto | مرثیہ| Marsiya| مراث پیام آعظمی | Marasi e Payam Azmi

20230730_173902

اسلام اک نظام معبد ہے دوستو

ڈاکٹر پیامؔ آعظمی 



مرثیہ 


اسلام اک نظام معبد ہے دوستو

اسلام اوج فکر کی سرحد ہے دوستو

اسلام درس اشرف امجد ہے دوستو

 اسلام دین آلِ محمد ہے دوستو

آل رسول حق کا جہاں نام ہی نہیں

 وہ اور کوئی چیز ہے اسلام ہی نہیں


اسلام مصطفی کی جلالت کا نام ہے

اسلام بو تراب کی قوت کا نام ہے

اسلام فاطمہ کی طہارت کا نام ہے

اسلام اہلبیت کی عظمت کا نام ہے

اسلام دل ہے فاتح بدر و حنین کا

 اسلام کی رگوں میں لہو ہے حسین کا


اسلام ہے رسول کا فرمان دوستو

اسلام ہے حیات کا عنوان دوستو

جب تک ہے ربط عترت و قرآن دوستو

کرتا رہے گا وقت یہ اعلان دوستو

خالق ہے جو جہاں میں سپید و سیاہ کا

 قانون بھی چلے گا اسی بادشاہ کا


انسانیت کی جان میں قرآن و اہلبیت

دین خدا کی شان میں قرآن و اہلبیت

خالق کے ترجمان میں قرآن و اہلبیت

اللہ کی زبان میں قرآن و اہلبیت

میزان حق میں قول محل تولنے لگے 

یہ ہو گیا خموش تو وہ بولنے لگے


آئے رسول پاک ہوئی صبح زندگی 

مٹنے لگی جہاں سے جہالت کی تیرگی

 پہونچی دل و دماغ تک انساں کے روشنی

 دیتے تھے جتنے برسر دامان زندگی 

اک ضرب لا الہ سے کافور ہو گئے

 یک صدیوں میں جو بنے تھے وہ بت چور ہو گئے


جو ساری کائنات سے برتر ہے وہ رسول 

جو خالق حیات کا مظہر ہے وہ رسول

 جو کشتی نجات کا لنگر ہے وہ رسول

 جو فضل اور شرف کا سمندر ہے وہ رسول

 دے کر دُعائیں ظلم کو مجبور کر دیا

 پھولوں سے پتھروں کا جگر چور کر دیا


بخشا ہے جس نے حسن عروس حیات کو 

دھڑ کا دیا ہے جس نے دل کا ئنات کو 

جس نے اُجاڑ ا محفل لات و منات کو 

جس نے دیا ہے صبح کا پیغام رات کو 

طوفاں کو امن و صلح کا زینہ بنا دیا

موجوں کو جس نے اُٹھ کے سفینہ بنا دیا


جو کل فضیلتوں سے بھی افضل تھا وہ نبی

 جو ہر طرح سے کامل واکمل تھا وہ نبی 

جو انبیاء کی صف کا ہر اول تھا وہ نبی 

جو صفحہ حیات کا بجدول تھا وہ نبی

 بندہ بھی ہے خدا کا حبیب خدا بھی ہے

 دنیا کی ابتدا بھی ہے اور انتہا بھی ہے


سمجھائے کون بزم جہاں کے جہول کو

پہچانتے نہیں میں فروع و اصول کو

کانٹوں میں تولتے ہیں یہ نافہم پھول کو

سمجھے ہیں اپنے جیسا خدا کے رسول کو

کوہ گراں کو جہل نے رائی سمجھ لیا

امت نے اپنے باپ کو بھائی سمجھ لیا


دختر کشی کی رسم مٹادی رسول نے

بنیاد ظلم وجور ہلا دی رسول نے

ہر دور ہر صدی کو صدادی رسول نے

باطل کے گھر میں آگ لگا دی رسول نے

مثل خلیل ظلم کو بیکار کر دیا

بغض و حسد کی آگ کو گلزار کر دیا


اٹھتی نہ تھی کہیں کسی بے پیر کی صدا

 گم ہو گئی تھی منجر و شمشیر کی صدا

 قدموں میں دب کے رہ گئی زنجیر کی صدا 

پھیلی ہوئی تھی نعرہ تکبیر کی صدا

 آواز دب کے رہ گئی ہر روسیاہ کی

 گونجی مترا جو اشہد الا اللہ کی 


اہل ستم نے کر لیا آخر یہ فیصلہ 

ممکن نہیں رسول خدا سے مقابلہ

 ٹوٹے گا جب حیات محمد کا سلسلہ

 ہم جیت لیں گے تب حق و باطل کا مرحلہ

 جب ہوگی آنکھ بند خدا کے رسول کی

محفل اجاڑ دیں گے فروع و اصول کی


لیکن ستم گروں کی سیاست نہ چل سکی 

بعد نبی بھی کوشش امت نہ چل سکی

 چاہا بہت پر نبض جہالت نہ چل سکی 

اہل ہوس کی کوئی شرارت نہ چل سکی 

حق مطمئن تھا دامن شیر الہ میں 

اسلام آ گیا تھا علی کی پناہ میں


سیرت میں کوئی فرق نہ صورت میں کوئی فرق

 علم و عمل نه شکل و شباہت میں کوئی فرق

 قد میں تھا کوئی فرق نہ قامت میں کوئی فرق 

آتا کہاں سے دین و شریعت میں کوئی فرق 

کہنا پڑا خود اہل کدورت کو پاس میں

 موجود ہیں رسول علی کے لباس میں


جو ذمہ دار کار نبوت تھا وہ علی

جو تاجدار ملک شریعت تھا وہ علی

جو آفتاب چرخ امامت تھا وہ علی

جو حق کی بولتی ہوئی آیت تھا وہ علی

جو ہے کتاب زیست میں عنوان کی طرح

 لاریب جس کی ذات ہے قرآن کی طرح


لکھا ہوا ہے عرش بریں پر علی علی

مرقوم ہے کتاب مہیں پر علی علی

ہر دم ہے آسمان و زمیں پرعلی علی

دیکھا زبان دشمن دین پر علی علی

کہنا پڑا ہیں بادشہ بحر و بر علی

 ہو جاتا میں ہلاک نہ ہوتے اگر علی


دشمن کے حق میں تیغ شرر بار ہے یہ نام 

لکھ لو اگر تو مطلع انوار ہے یہ نام

 تاریکیوں میں شمع ضیا بار ہے یہ نام

اور بیکسوں کو سایہ دیوار ہے یہ نام

 یہ نام مومنین کے گھر کا چراغ ہے

روشن اسی سے دل کی امیدوں کا باغ ہے


شیر خدا کی مونس و یا ور تھیں فاطمہ

گویا چراغ خانہ حید ر تھیں فاطمہ

اہلِ ستم کے حق میں ہیمبر تھیں فاطمہ

 قرآن علی تھے سورہ کو شر تھیں فاطمہ

دیکھا جو عظمتوں کا منارہ زمین پر

اترا ہے آسماں سے ستارہ زمین پر


ارباب ظلم وجور کو ششدر بنا دیا

اشکوں کو اپنے ضربت حیدر بنا دیا 

نوحوں کو اپنے تیغ دو پیکر بنا دیا

 اپنی صدائے درد کو شکر بنا دیا

 کہتا ہے سر جھکا ہوا اہلِ جہول کا

 کم تھا نہ ذوالفقار سے خطبہ بتول کا


دربار میں جو زور خطابت دکھا دیا

ارباب فسلم وجود کو پیچھے ہٹا دیا

غم کا چراغ راہ عمل میں جلا دیا

باغی ہے کون باغ فدک نے بتا دیا

 اشکوں سے گرد چہرہ اسلام صاف کی 

دنیا کو دے رہی تھیں خبر انحراف کی


ترسے گا دست علم و عمل آستین کو

 دے گا مدد نہ اب کوئی مستضعفین کو

 نہلائیں گے لہو سے خدا کی زمین کو

 شامل کریں گے مالِ غنیمت میں دین کو

 بے چینیوں کے فرش پر سوتی تھیں فاطمہ 

اسلام رو ر ہا تھ تو روٹی تھیں فاطمہ 


اٹھے اگر کر دیں شیر انہی کا سر قلم

 کیوں مانتے نہیں یہ کہ رسے بڑے ہیں ہم

 مجبور ہو کے رہ گئے سب بانی ستم 

کرتی رہیں لا کی حفاظت بچشم تم

ان کی پناہ میں اسد کرد گا ر تھا 

زہرا نہیں تھیں ذات علی کا حصار تھا



شیر خدا کی ذات تھی اسلام کا وقار 

کچھ کر سکے نہ دین خدا کا ستم شعار

 کرنے لگے شہادت مولا کا انتظار 

بعد علی بھی رک نہ سکا حق کا کاروبار 

یہ دیکھ کر عدو کے قدم ڈگمگا گئے 

رخصت ہوئے علی تو حسن اُٹھ کے آگئے


دین خدا کو دولت بیدار بخش دی 

اہلِ وفا کو اک نئی تلوار بخش دی

 لفظ و بیاں کو گرمی پیکان بخش دی 

خاموشیوں کو تیغ کی جھنکار بخش دی

 توڑا غرور لشکر باطل شعار کا 

نوک قلم سے کام لیا ذوالفقار کا


اہل ہو س یہ عزم جواں دیکھتے رہے

خُلق حسن کی ضرب گراں دیکھتے رہے

صلح حدیبیہ کا سماں دیکھتے رہے

طرز رسول کون ومکاں دیکھتے رہے

یہ سوچ کر لعین ہدف پیچ و تاب ہیں

پر دے میں مجتبیٰ کے رسالت مآب ہیں


صلح حسن کا دیکھئے اللہ اے جلال

 بیعت کا آسکا نہ لب ظلم پر سوال

 ز ہر دغا سے قتل ہوا فاطمہ کا لال 

لیکن نہ آیا دین محمد پہ کچھ زوال

 اُٹھے حسن جہاں سے جو عظمت لئے ہوئے

 نکلے حسین نام شہادت لئے ہوئے


جو آرزوئے حیدر و احمد ہے وہ حسین

 جو وجہ افتخار اَب و جد ہے وہ حسین

 جو عزم و صبر و ضبط کی سرحد ہے و حسین

 جو دشت کربلا کا محمد ہے وہ حسین

 ہمت نہیں اٹھانے کی فکر پلید کو

 پھینکا ہے اتنی دور اُٹھا کر یزید کو


سوئے ہوئے ضمیر کو بیدار کر دیا 

حربہ سب اہلِ ظلم کا بیکار کر دیا 

زخموں کو پھول، پھول کو تلوار کر دیا 

سوکھے گلوں کو آہنی دیوار کر دیا 

جاں دی ہے روح کفر و ضلالت کو مار کے

 ڈوبا ہے زندگی کا سفینہ ابھار کے


حامی یزیدیت کے تو یوں بارہا اُٹھے

 ظالم کی مدح کرنے کو اہل جفا اُٹھے

فرزند خلّدون و بن تیمیہ اُٹھے

 اٹھنے کا دم نہ جس میں ہو آخر وہ کیا اُٹھے

ہاتھ اُٹھ سکا نہ فکر قدیم و جدید کا

 ابتک پڑا ہوا ہے جنازہ یزید کا


پہنے صداقتوں کا کفن آگئے حسین 

مثل چراغ جلوہ فگن آگئے حسین

میداں میں بنے کے  قلعہ شکن آگئے حسین

جب ہو گئے شہید حسن آگئے حسین

ار باپ مکر وشر کی بحالی نہ ہوسکی

 یعنی جگہ رسول کی خالی نہ ہوسکی


اور جب شہید ہو گیا فرزند بو تراب

 اٹھے زمیں سے عابد مضطر بہ آبے تاب

وہ ظلم کا زوال شجاعت کا وہ شباب

 ڈو با ا ک آفتاب تو ابھرا اک آفتاب

باطل مٹا نظام خلافت کے ساتھ ساتھ 

حق رہ گیا وجود امامت کے ساتھ ساتھ


باطل کو تخت شام کا قیدی بنا دیا

یعنی خیال خام کا قیدی بنا دیا

اہل ستم کے دام کا قیدی بنا دیا

ہارے ہوئے نظام کا قیدی بنا دیا

حملہ کیا جو اُٹھ کے صف بد گان پر

بیعت کا نام آنہ سکا پھر زبان پر


سمجھا تھا ظلم حضرت شبیر مرگئے

 حامی جو دین کے تھے جہاں سے گزر گئے 

عابد پہ کی نگاہ تو چہرے اتر گئے

 بیعت کے خواب گرد کی صورت بکھر گئے 

موجود اب بھی بادشہ مشرقین ہیں

 کہنا پڑا کہ آج بھی زندہ حسین ہیں


عابد کے بعد باقر علم مبیں اُٹھا

یعنی پھر اک محمد عہد آفر میں اُٹھا

آئی ندا کہ نور خدا کا امیں اُٹھا 

اے دین پاک خاک اپنی جبیں اُٹھا

حیرت سے سارے بانی شر دیکھتے رہے

 پھر کھل رہا ہے علم کا در دیکھتے رہے


نور نگاہ فاتیح خیبر تھی جس کی ذات

اور آرزوئے قلب پیمبر تھی جس کی ذات

محبوب کبریا کا مقدر تھی جس کی ذات

جو وقت کا حسین تھا حیدر تھی جس کی ذات

برسوں دعائیں کی تھیں علی و بتول نے

کہلایا تھا سلام جسے خود رسول نے


زندہ خدا کا آخری پیغام کر دیا

قانون دیں کو جلوہ گہ عام کر دیا

محکم نظام مذہب اسلام کر دیا

ہر دور کے یزید کو ناکام کر دیا

بتلا دیا کہ وارث امّ الکتاب ہوں

اس عہد میں زمین پہ میں بو تراب ہوں


باقر کے بعد بھی نہ بنی اہل شر کی بات

 دین خدا تھا جعفر صادق کے ساتھ ساتھ 

گو اہل ظلم و جور لگائے ہوئے تھے گھات

 محفوظ ہر طرح تھی مگر دین کی حیات 

دشمن بہت تھے زور کسی کا نہ چل سکا

 اس بزم میں چراغ جہالت نہ جل سکا


اپنے عمل سے نقش جہالت مٹا دیا

 طوفان ظلم وجور اٹھا اور دب گیا

 آیا نظر جو علم امامت کا معجزہ 

بے اختیار دی لب تاریخ نے صدا

لہجہ وہی ہے اور وہی طرز بیان ہے

مولا ترے دہن میں نبی کی زبان ہے


اہل ہوس بھی گرمی جذبات لے گئے

 بد بخت نور صبح سے بھی رات لے گئے 

بھیک ان کے در سے وقت مدارات لے گئے

 بغداد میں مدینے کی خیرات لے گئے 

زمزم میں خاک وادی ظلمات گھول لی 

اہل ہوس نے فتووں کی دوکان کھول لی


پھرتے رہے قیاس کی گلیوں میں کم نظر

 تاریکیوں میں کرتے رہے عمر بھر سفر

 کچھ مل سکا نہ چھوڑ کے آلِ نبیؐ کا در

 جاہل کو جاہلوں نے بنایا تھا راہبر 

تھا علم کچھ نہ جن کو حلال و حرام کا

 دنیا نے دے دیا لقب ان کو امام کا


مانا کہ فکر اہل زمانہ تھی بے لگام

 لیکن بدل سکا نہ کوئی دین کا نظام

 اللّٰہ رے عزم جعفر صادق کا اہتمام

 گونجا ہوا ہے اب بھی زمین پر خدا کا نام 

باقی ہے علم کا پر پرواز دیکھ لے

 دنیا پہ اہلبیت کا اعجاز دیکھ لے


 جعفر کے بعد موسیٰ کاظم کی شان دیکھ

 آغوش میں زمیں کی ہے یہ آسمان دیکھ

 دین خدا کا ساتواں یہ ترجمان دیکھ

 حیدر کی آن دیکھ ہیمبر کی شان دیکھ 

دیدار جس نے کر لیا جانِ بتول کا

 وہ بھی ہے چشم حق میں صحابی رسول کا


زندان غم میں نور کا دھارا اسیر تھا 

محبوب کبریا کا وہ پیارا اسیر تھا

 بنت نبی کا راج دلارا اسیر تھا

 جلوے بکھر رہے تھے ستارا اسیر تھا

 زنداں کے دن گزرتے رہے اعتکاف میں

 قرآن جس طرح سے رکھا ہو غلاف میں 


کا نظم اٹھے جہاں سے تو سمجھے یہ اہل کیں

 اب دین کبریا کا محافظ کوئی نہیں

 اٹھے کہ بڑھ کے لوٹ لیں ساری متاع دیں

 نوع بشر سے چھین لیں یہ دولت یقیں 

سمجھے کہ اب نہ دھڑ کے گادل کائنات کا 

سوچا کہ ڈوب جائے سفینہ حیات کا


لیکن چلا نہ اہل کدورت کا کاروبار 

اُٹھا نبی کی شان سے جیت در کی یادگار 

وہ آٹھواں نظام شریعت کا ذمہ دار 

چمکی رو عمل میں صداقت کی ذوالفقار

 اہلِ ستم کو زیر زمیں دفن کر دیا 

فتنے جہاں اٹھے تھے وہیں دفن کر دیا


 سوچا ستم گروں نے کرشمہ دکھائیں گے

 داماد اپنا جان علی کو بنائیں گے

 نسخہ جو آزمایا تھا پھر آزمائیں گے

 ظلمت کا جوٹر نور خدا میں لگائیں گے

 لیکن زمین مل نہ سکی آسمان سے 

یہ مرحلہ بھی سر کیا دادا کی شان سے


بعد رفت امام محمد تقی اُٹھے

بیٹھے نبی کی طرح سے مثل علی اُٹھے

ان سے مقابلے کے لئے جب شقی اُٹھے

ٹکرا کے یوں گرےکہ نہ وہ پھر کبھی اُٹھے

طوفان ظلم و جور پڑھا اور پلٹ گیا 

رشتہ ستم کا علم کی ضربوں سے کٹ گیا


اہل ہوس جو شامل دربار تھے بہت

اپنے غرور علم کے بیمار تھے بہت

یعنی اسیر بجبہ و دستار تھے بہت

مولا سے بحث کرنے پر تیار تھے

 بہت فتنوں کی جو کھلی وہ دوکاں بند ہوگئی 

دیکھا انھیں تو سب کی زباں بند ہوگئی


مچھلی چھپ کے مٹھی میں آگ روز بدسیر

 بولا کہ اس میں کیسا ہے بتا دیجئے اگر 

سمجھوں گا میں کہ آپ ہیں دنیا کے راہبر 

کہنے لگے یہ سن کے شہنشاہ بحر و بر

میں وارث کتاب الہی ہوں جان لے 

بیٹا علی کا ہوں نہ مرا امتحان لے


ارض و سماں کے بیچ میں دریا ہیں کچھ رواں 

موجوں میں جن کی تیرتی رہتی ہیں مچھلیاں

 کر کے شکار باز سے حکام بدگماں 

لیتے ہیں تاجدار امامت کا امتحاں

 اللّٰہ کو یہ طرز عمل نا پسند ہے

 مٹھی میں تیری ماہی بے آب بند ہے


بعد تھی ہوئے ہیں علی نقی امام 

اک لمحہ بھی رُکا نہ شریعت کا انتظام 

جاری تھا مثل عبد نبی دین حق کا کام 

ہوتے نہ یہ تو لیتا نہ کوئی خدا کا نام 

کیسے کی آبرو تھی امام مبین سے

 عزت مکان کی ہے جہاں میں مکین سے


بلوایا بادشاہ نے مولا کو ایک بار

 سوچا دکھائے کثرتِ افواج بے شمار

 ٹیلے پر لے کے آیا نقی کو مآل کار 

کہنے لگا کہ دیکھئے اب میرا اقتدار 

میدان میں سروں کا سمندر نظر پڑا

 پھیلا ہوا زمین پر لشکر نظر پڑا


بولے امام قوت حیدر بھی دیکھ لے

 اب اقتدار آلِ ہمیشہ بھی دیکھ لے

دیکھا نہیں کبھی جو وہ منظر بھی دیکھ لے 

اے کم نگاہ اُٹھ میرا لشکر بھی دیکھ لے

یہ کہہ کے اک اشارہ فضا میں جو کر دیا

 فوجوں سے کائنات کے دامن کو بھر دیا


دیکھا جو آنکھ کھول کے ظالم نے ایک بار

ہے اس زمیں سے تا بہ فلک فوج بے شمار

جن و ملک تمام ہیں باندھے ہوئے قطار

 دیکھا نبی کی آل کا جس وقت اختیار

کا فور اقتدار کا سب جوش ہو گیا

چکرا کے کم نظرو ہیں بے ہوش ہو گیا


مد نقی امام حسن عسکری کی شان

 حیدر کا رعب و داب پیمبر کی آن بان 

اہل ہوس کے بینچ میں خالق کے ترجمان 

جیسے رسول سکتے میں غیروں کے درمیان

 ظلمت حسن کے نور سے کا فور ہو گئی 

شکر ا کے آسماں سے زمیں چور ہوگئی


کہنا پڑا کہ وارث دین خدا ہو تم

الہ مان فاطمہ ہو علی کی دعا ہو تم

ہم سب ہیں گردِ راہ سفر رہنما ہو تم

آیات کے امین دلِ مصطفیٰ ہو تم

کس طرح حق ادا ہو ہماری زبان سے

قرآن بولتا ہے تمہاری زبان سے


کندی تھا ایک عالم بے دین و بد شعار 

قرآن میں تضاد کا بن بیٹھا دعویدار 

بے میں تھے سارے دین شریعت کے ٹھیکے دار 

آیات دے رہی تھیں دُہائی یہ بار بار

 مشکل کشا کے لال بلاؤں کو رد کرو

اے وارث علوم اپنی مدد کرو


(۵۸) اُٹھا برائے نصرت قرآں بصد وقار 

وہ گیارہواں کتاب الہی کا ورثہ دار

 تفسیر کی تو جاگ اٹھیں آیاتِ کردگار 

سارا تضاد حسن نظر آیا ایک بار

 جتنا پڑھا تھا علم کا نشہ اتر گیا 

قرآن کو مار نے جو اُٹھا خود ہی مر گیا


بعدِ حسن وہ بادشہ مشرقین ہے

 دادا کی طرح فاتح بدروحنین ہے 

حیدر کی آرزو دل زهرا کا چین ہے 

اس دور کا ملی ہے حسن ہے حسین ہے 

پر دے میں ذاتِ اشرف امجد ہے آج بھی

 باقی جہاں میں ایک محتد ہے آج بھی


زندہ ہے آج بھی وہ دل و جان فاطمہ

وہ حاصل بہار گلستان فاطمه

پورا کرے گا آ کے جو ارمان فاطمہ

بیٹھا ہوا ہے شیر نیستان فاطمہ

اٹھا نہ آج تک جو وہ طوفان دل میں ہے

عباس کی جہاد کا ارمان دل میں ہے


ہے ورثہ دار بادشہ مشرقین کا 

ہے آسرا و ہی دلِ زہرا کے چین کا 

دکھلا کے زور فاتح بدر و حنین کا

 لینا ہے انتقام اِسے خونِ حسین کا 

غصے میں شیر ضیغم پروردگا رہے

 بس مرضی خدا کا اُسے انتظار ہے


راتوں کو اب بھی کرتی ہیں فریاد سیدہ 

پچھلے پہر بقیع سے آتی ہے یہ صدا 

دشت بلامیں میرا بھرا گھر اجڑ گیا

 دادی کو انتظار ہے اے میرے لال آ 

ڈوبا ہوا لہو میں مرا نور عین تھا 

جنگل میں تین روز کا پیاسا حسین تھا


جب حق پر سارے یا ور و ناصر ہوئے فدا 

ڈیوڑھی پہ آ کے سبط پیمبر نے دی صدا

 عباس مرچکے علی اکبر ہوئے جدا 

جاتا ہے سر کٹانے کو یہ غم کا مبتلا 

زینب پکڑ کے دل در خیمے سے ہٹ گئیں 

لیکن سکینہ آکے پدر سے لپٹ گئیں


رورو کے دی صدا مرے بابا نہ جائیے

دشت ستم میں سید والا نہ جائیے 

لللّٰہ چھوڑ کر مجھے تنہا نہ جائیے

جنگل میں ہو رہا ہے اندھیرا نہ جائیے 

صورت پھر آکے اپنی دکھاتا نہیں کوئی

 دشت ستم سے لوٹ کے آتا نہیں کوئی


گودی میں لیکے بچی کو پھر شاہ بے وطن

 فرماتے تھے یہ چوم کے سوکھے ہوئے دہن 

پانی پلا سکا نہ تجھے ہائے خستہ تن

 زینب کو دی صدا کہ سنبھالو اسے بہن

 غم سے نہ تھا سفہ کا جو یا را حسین کو

بڑھ کر دیا بہن نے سہار ا حسین کو 


آیا جوان میں مرسلِ اعظم کی یادگار 

نکلی تڑپ کے میان سے حیدر کی ذوالفقار

 حملہ کیا تو ہلنے لگا دشت کا رزار 

تھا شور الا ماں کا قیامت تھی آشکار

 آئی ندائے غیب کہ شکر خدا کرو

 بس اے حسین وعده طفلی ادا کرو


بولے حسین قوتِ حیدر رکھا چکا

 اے ذوالفقار بس کہ نہیں اذنِ کبریا

 برسائے تیر شوق سے اب لشکر جفا

 ائے اہل ظلم آؤ کہ حاضر ہے یہ گلا

 دنیا ہے امتحاں دلِ زہرا کے چین کو 

جلتی زمیں پر کرنا ہے سجدہ حسین کو


تلوار روک لی تو بڑھی پھر سپاہِ شام

 اہلِ ستم میں گھر گیا زهرا کا لالہ فام 

نیز و نگار ہا تھا کوئی اور کوئی حام

 کھایا جو گزر چھوٹ گئی ہاتھ سے لجام

 پشت فرس سے فاطمہ کی جان گر پڑا

 اک شور تھا زمین پر قر آن گر پڑا


عابد نے غش سے چونک کے جیسے میں دی صدا

 جلدی بتائیے پھوپھی اماں یہ کیا ہوا 

مقتل میں کیسا شور ہے یہ کون گر پڑا

 کیوں کا نپتا ہے چرخ زمیں کو ہے زلزلہ

 سناٹا کیوں ہے قاسم و اکبر کہاں گئے

 عمو کہاں ہیں سبط پیمبہ کہاں گئے


زینب پکاری قتل ہوئے شہ کے جانثار 

شانے کٹا کے سو گئے عباس نامدار 

ہمشکل مصطفے کا جگر ہو گیا نگار

 ڈوبا لہو میں قاسم مضطر کا جسم زار

 کوئی نہیں ہے ناصر و یا در حسین کا 

خنجر گلے پر سجدے میں ہے سرحسین کا


جلتی ہوئی زمین پر زہرا کا مہ لقا 

آئے نہ کیوں زمانے میں اے لال زلزلہ

 بکھرائے بال کرتی ہیں فر یا دسیدہ 

باندھے ہوئے قطار کھڑے ہیں سب انبیاء 

سرکٹ رہا ہے بادشہ ذی صفات کا

 نیزوں اچھل رہا جو پانی فرات کا


شاعر اہلبیت:ڈاکٹر پیامؔ آعظمی



نوٹ: اہلبیت کی مدح میں کہے گئے کوئی بھی اشعار جو اس ویبسائٹ پر موجود نہ ہوں شامل کرنے کے لئے ہم سے رابطہ کریں۔

Contact Us: husainiclips@gmail.com

Post top ad