.com/img/a/

Madh e Ahlebait

20230721_225936

اتوار، 6 اگست، 2023

روشن کیا جو حق نے چراغ انتقام کا | Raoshan kiya jo haq ne charagh inteqam ka | مرثیہ مرزا دبیر | Marsiya Mirza Dabeer


20230806_230227


روشن کیا جو حق نے چراغ انتقام کا


مرثیہ 


روشن کیا جو حق نے چراغ انتقام کا 


دل صر صر فنا سے بجھا اہل شام کا 


اندھیر کچھ گھٹا فلک نیلی فام کا 


تلنے لگا سفید و سیہ صبح و شام کا 


گل شمع فتح کا صفت غنچہ کھل گیا 


مختار کو جہاد کا پرونہ مل گیا 



ہمت پکاری ظالموں کے قلب چاک کر 


بو جہل سیرتوں کو خراب و ہلاک کر 


اصحاب بو تراب کا دل غم اسے پاک کر 


احباب بو لہب کو جلا کر تو خاک کر 


عنتر کے ہمسروں کا جدا تن سے فرق کر 


مرحب کی قوم کوچۂ ہب ہب میں غرب کر 



ہاں گلشن قصاص کو خنجر سے آب دے 


ہاں تیر کی زباں سے عدو کو جواب دے 


ہاں اتقیا کو مژدۂ اجرو ثواب دے 


ہاں اشقیا کو وعدۂ قہر و جواب دے 


سر سبز برق نیزہ سے تخم مراد کر 


روشن نسیم تیغ سے شمع جہاد کر 



ہمت کا درس تجھ کو سکندر سے چاہئے 


جرأت کا اخذ مالک اشتر سے چاہئے 


خدمت کا بادہ کاسۂ قنبر سے چاہئے 


نقد خلوص کیسہ بوذر سے چاہئے 


اسلام میں برابر سلماؓ ںمکیں ہو تو 


اخلاص میں اویس قرن کے قریں ہو تو 



یوں خضر حکم حق جو ہوا اس کا رہنما 


لبیک کی سکندر طالع نے دی ندا 


سکہ پڑا سفید و سیہ پر جدا جدا 


چاندی دکھائی چاند نے خورشید نے طلا 


بولا قرار کون و مکاں میں بھلا کرے 


وہ کیجئے کہ کون و مکاں حق عطا کرے 



اور چتر سر بنے پر وبال ہمائے فتح 


کی زیب تن قضا و قدر نے قبائے فتح 


روح القدس نے چہرے پہ دم کی دعائے فتح 


شوکت نے غرب و شرق میں کھولا لوائے فتح 


یاں تک دراز آرزوئے جنگ ہوگئی 


تن پر قبائے ہفت فلک تنگ ہوگئی 



دکھلایا آفتاب نے آئینہ با ادب 


چار آئینہ بھی اپنا جری نے کیا طلب 


دکھلا کے چار چار پہر اپنے روز و شب 


بولا یہ پیش کش ہو ہماری قبول اب 


اک دن کا چار آئینہ ہے ایک رات کا 


حافظ خدا ہے آٹھ پہر تیری ذات کا 



آہن کا خود مرتبہ پارس کا کیوں نہ پائے 


یہ پیرو حسینؑ جسے اپنے سر چڑھائے 


درجے سر بلند نے یہ خود کے بڑھائے 


مضمون جس کے پیر فلک کے نہ ہاتھ آئے 


نازاں ہوا یہ خود سر بے عدیل پر 


پھینکی کلاہ فتح نے عرش جلیل پر 



زیب کمر وہ تیغ ظفر کی پئے مصاف 


جو سرکشان دہر کے سر پر تھی موشگاف 


باندھی جری نے وہ سپر آسماں غلاف 


سورج گہن میں آئے جو ہواس سے بر خلاف 


ترکش میں چیدہ چیدہ خدنگ اس نے بھر لئے 


عقرب پئے اقارب شمر و عمر لیے 


10 


وہ دونوں رخ تھے یا کہ پئے نذر شیر حق 


شمس و قمر لیے تھے زر وسیم کے طبق 


لب کہ وہ جن کے رنگ سے گل ہو عرق عرق 


اور کلیات غنچہ پریشاں ورق ورق 


کیا خط و عارض و لب و گیسو سے کام تھا 


مختار چین و روم و سمرقند و شام تھا 


11 


اور نطق طوطی شکرستان ذکر حق 


یا دفتر مناقب حیدرؑ کا اک ورق 


تھی وہ زبان بلبل سدرہ سے ہم سبق 


کہتا تھا اس زباں سے وہ صادق جو حرف حق 


وصف علیؑ و آل نبیؐ برزبان ماست 


گویا زباں برائے ہمیں دردہان ماست 


12 


ہمدست لاکھ رستم دستاں ہوں اس سے کب 


ہاتھ اس کا تھا وہ ہاتھ کہ جس نے بحکم رب 


کی بیعت امام زبردستوں سے طلب 


جو دست بیع اس سے ہوا درجے پائے سب 


چوما قدم تو خلد کے آٹھوں چمن ملے 


پہنچا جو ہاتھ پنجے تلک پنچتن ملے 


13 


وہ دونوں ہاتھ تھے الف انتقام کے 


وہ دو الف شریک ازل سے امام کے 


ہنگام جنگ تیغ و سپر تھام تھام کے 


اعدا سے لیں قصاص شہ تشنہ کام کے 


بے ان کے داد خواہ کبھی معترف نہ ہوں 


انصاف نصف ہووے جو یہ دو الف نہ ہوں 


14 


رگ رگ میں ریشے ریشے میں تھا جوہر وفا 


پیدا ہوا تو مادر مختار نے سنا 


ہاتف نے دی ندا میں پسر پر ترے فدا 


اک دن قصاص لے گا یہ بے کس حسینؑ کا 


یہ شیفتہ ہے فاطمہؑ کے نور عین پر 


واجب شفاعت اس کی ہے روح حسینؑ پر 


15 


حقا کہ جز فضائل مختار خوش خصال 


گر ہے کوئی حدیث تقیے پہ ہے وہ دال 


جب رن میں باغ فاطمہؑ ہوتا تھا پائمال 


روکر حسینؑ کہتے تھے ا ئےرب ذوالجلال 


باغی تباہ کرتے ہیں گلزار کو مرے 


مختار کر قصاص کا مختار کو مرے 


16 


سجاد سے یہ چند حدیثوں میں ہے خبر 


محسن ہے اہل بیت کامختار نامور 


کیا ہم کو اختیار تھا جب مرگئے پدر 


پوشاک ماتم اس نے بدلوائی سر بسر 


لازم ہے دوستان حسینؑ شہید کو 


تحسین اسے کیا کریں نفریں یزید کو 


17 


کونے میں جب کہ آئے تھے مسلم نکو سیر 


بیعت سے ان کی پہلے ہوا تھا یہ بہرہ ور 


ٹھہرا کے یہ قصور بس اس بے قصور پر 


خواہان جان و مال تھا مرجانہ کا پسر 


آہوئے کعبہ رن میں جب امت کا صید تھا 


مختار قید خانے میں کونے کے قید تھا 


18 


واں رن میں سر حسینوں کے ہوتے تھے قلم 


زنداں کے در پہ سر پہ پٹکتا تھا دم بدم 


دیتا تھا کربلا کو ندا وہ اسیر غم 


افسوس اے حسینؑ نہیں اپنے بس میں ہم 


کھیتی لٹی بتولؑ کی دشت جہاد میں 


سادات آئے مجلس ابن زیاد میں 


19 


ابن زیاد بولا کہ مختارؑ کو بلاؤ 


سیدانیوں کے ہاتھ بندھے اس کو بھی دکھاؤ 


لائے تو پوچھا بیوؤں کو کیادوں سزا بتاؤ 


لو تم بڑے محب ہو انہیں قید سے چھڑاؤ 


ہیں سر برہنہ فکر لباس و ردا کرو 


مومن تو ہو حمایت آل عبا کرو 


20 


مشکیں بندھی تھیں رو کے دلاور نے یہ کہا 


بدلا نہ اس کا لوں تو جبھی کہیو تو بھلا 


کہتے ہیں اس گھڑی سے وہ رویا کیا سدا 


زنداں سے بھی چھٹا تو اسیر الم رہا 


ہر روزیہ دعا تھی کہ روز جہاد ہو 


طالع خدا کے مہر سے صبح مراد ہو 


21 


مقبول کی خدا نے یہ دیندار کی دعا 


یعنی یزید نحس نے کی شام میں قضا 


عازم قصاص کا ہوا مختار باوفا 


عابد کے آستانے پہ آیا پئے رضا 


در پر سنا کہ بیبیوں میں شورو شین ہے 


عاشور سے زیادہ عزائے حسینؑ ہے 


22 


زینبؑ کی آرہی ہے یہ آواز وا اخا 


بانوؑ پکارتی ہے کہ اکبرؑ کدھر گیا 


بیمار ایک لڑکی یہ کہتی ہے برملا 


ہے ہے نہ میرے درد کی اب تک ملی دوا 


بھولے بہن کو اکبرؑ عالی خصال بھی 


بابا نہ کربلا سے پھرے اب کے سال بھی 


23 


القصہ سن کے آمد مختار کی خبر 


در پر امام آئے حرم سب قریب در 


مختار نے قدم پہ جھکایا ادب سے سر 


دل میں جو آرزو تھی کہی ہاتھ باندھ کر 


فرمایا مسکرا کے شہ بے نظیر نے 


ہم کو خبر یہ دی ہے جناب امیرؑ نے 


24 


پھر پشت سے لباس مبارک اٹھا کے ہائے 


مولا نے تازیانوں کے اس کو نشان دکھائے 


زینبؑ پکاریں بھائی اگر شمر ہاتھ آئے 


سر اس کا کاٹ لیجیو جیتا نہ جانے پائے 


بولی سکینہؑ سب سے وہ ظالم زیاد ہے 


اس کا طمانچہ آج تلک مجھ کو یاد ہے 


25 


اس نے کہا بفضل خدا ہوئے گا یونہیں 


سنیو کہ غرق خوں ہوئی کوفے کی سب زمیں 


سجاد سے ودا ع ہوا پھر وہ اہل دیں 


آئی ندا بقیع سے مختار آفریں 


اب تک وہی ہے جوش مرے شور و شین کا 


ہاں انتقام لے مرے بے کس حسینؑ کا 


26 


عابدؑ نے اک غلام سے اپنے کیا خطاب 


کہتے تھے اس کو فارس ہیجا ابوتراب 


لے جا مرا فرس وہ دے آیا اسے شتاب 


غازی چڑھا جو اس پہ ہوئی فتح ہم رکاب 


بیمار کربلا کا وہ رخش صبیح تھا 


صحت کے ساتھ چلنے میں نبض مسیح تھا 


27 


اس تیز رو کو کاہ سے تھی نفرت دلی 


یعنی کہ لفظ کاہ میں ہے حرف کاہلی 


گردش سے چرخ راہ کی جس دم عناں ہلی 


حقا ہوائے خلد اسے کھانے کو ملی 


پریاد ذوالجناح میں اندوہناک تھا 


جیب ہلال نعل اسی غم سے چاک تھا 


28 


رفتار گرم سے دل سیماب پارہ تھا 


ہر قطرۂ عرق سے یہ حسن آشکارا تھا 


طوفان پر جہاز ہوا پر ستارہ تھا 


بادل پہ برق آب رواں پر شرارہ تھا 


آندھی کی طرح آتا تھا وہ رزمگاہ میں 


لیکن چراغ نعل کے روشن تھے راہ میں 


29 


دل سے میان راہ پہ مختار نے کہا 


لے نائب حسینؑ سے تو جنگ کی رضا 


اب چل پئے زیارت مظلوم کربلا 


تو گو کہ با وفا ہے پہ ہے عمر بے وفا 


لازم زیارت پسر بوترابؑ ہے 


ہر ہر قدم پہ عمرۂ و حج کا ثواب ہے 


30 


لکھتا ہے کربلا میں جو آیا وہ باوفا 


پڑھنے لگا زیارت قبر شہ ہدا 


بولا لپٹ کے قبر سے روحی لک الفدا 


اے تشنۂ سقیفہ و صحرائے کربلا 


اے فخر صد ذبیح و صد ایوب السلام 


محبوب ذوالجلال کے محبوب السلام 


31 


کچھ اپنے سوگواروں کی تم کو خبر ہے آہ 


زینب تری بہن کفنی پہنے ہے سیاہ 


روتی ہے شام سے ترے حجرے پہ تاپگاہ 


اوروں کا قبر فاطمہؑ پر حال ہے تباہ 


ہمشکل مصطفی سے یہ کہہ دو مزار میں 


صغراؑ کھڑی ہے در پہ ترے انتظار میں 


32 


تقدیر میں سکینہؑ نے ماتم جو پایا ہے 


چھوٹا سا ایک تعزیہ خانہ بنایا ہے 


عباسؑ کا علم سر منبر لگایا ہے 


عابدؑ سے رو کے کہتی ہے غم دل پہ چھایا ہے 


بھائی بہن حقوق شہ دیں ادا کریں 


تم مرثیہ پدر کا پڑھو ہم بکا کریں 


33 


بہلانے اس کو آتی ہیں ہمجولیاں اگر 


کہتی ہے اب نہ کھیلوں گی میں تم میں بیٹھ کر 


تم سب ہو باپ والی میں دکھیا ہوں بے پدر 


ماتم ہے کربلا کے شہیدوں کا میرے گھر 


اماں ہماری بیوہ ہوئیں بابا مرگئے 


رونے کے دن میں کھیلنے کے دن گزر گئے 


34 


سمجھانے کو سکینہؑ کے اب آپ جائیے 


صغراؑ کو خواب میں رخ اکبرؑ دکھائے 


کبراؑ ہے بے قرار گلے سے لگائیے 


روتی ہے ماں کی قبر پہ زینبؑ اٹھائیے 


عابدؑ کی لو خبر کہ بہت ناتوان ہے 


بالائے پشت نیزوں کا اب تک نشان ہے 


35 


کانپا ہر ایک نام پہ شبیرؑ کا مزار 


اس نے حضور قبر دھری تیغ آبدار 


اور عرض کی کہ اے پسر شاہ ذوالفقار 


بندھوائیں آپ تیغ تو ہوئے کشود کار 


اذن جہاد مانگتا ہوں کس امید سے 


اس لب سے حکم دو جو کھلا چوب بید سے 


36 


یہ کہتے کہتے ہو گیا بے ہوش وہ سعید 


پر عین غش میں دیدۂ باطن کی تھی یہ دید 


روضہ میں برج قبر سے نکلا ہلال عید 


اور یا حسینؑ کہہ کے اٹھے قبروں سے شہید 


ہاتھوں پہ سر کٹے شہدا تھے لیے ہوئے 


زہراؑ جلو میں بال پریشاں کئے ہوئے 


37 


ہے پیش پیش فوج خدا حر نامور 


باندھے ہوئے بتولؑ کا رومال حق پر 


سردار کے قریب علمدار خوش سیر 


اصغرؑ کی لاش گود میں شہ کی لہو میں تر 


بولا کہ سہل عقدۂ دشوار ہیں مرے 


اتنے خدا کے شیر مددگار ہیں مرے 


38 


مختار کو حسینؑ نے اس وقت دی ندا 


نانا سلام کہتے ہیں اماں تجھے دعا 


مظلوم کے قصاص کا خواہاں ہے مرحبا 


دنیا میں فتح حشر میں فردوس دے خدا 


تحقیق کرکے ناریوں کو نار دیجیو 


حیدرؑ کے دوستوں کو نہ آزار دیجیو 


39 


پھر شاہ نے خطاب یہ عباسؑ سے کیا 


ہاں میرے شیر تو اسے شمشیر کر عطا 


سیف خدا نے تیغ اسے دے کے یہ کہا 


سقائے فوج ہم ترے ہوں گے دم وغا 


لے تیغ باندھ ہو تجھے ملک و عمل نصیب 


قبضہ تجھے نصیب اور اعدا کو پھل نصیب 


40 


آنکھیں کھلیں کریموں کے لطف عمیم سے 


کھلتے ہیں جیسے صبح کو غنچے نسیم سے 


رخصت ہوا مزار امام کریم سے 


گویا مقام طور کا چھوٹا کلیم سے 


یوں تیز رو تھا منزل مقصد کی راہ میں 


جس طرح ذوالفقار علیؑ حرب گاہ میں 


41 


کوفے میں پھر کے کوچہ بہ کوچہ یہ دی صدا 


یاروں کوئی شہید ہے بے کس حسینؑ سا 


جس کی نہ کچھ دیت نہ قصاص اور خوں بہا 


اک تن سے خون پنجتن پاک کا بہا 


ایسا بھی ملتوی کوئی دعویٰ رہا نہیں 


سید کا خوں بہا ہے مگر خوں بہا نہیں 


42 


ابن ابو تراب کی الفت ہے تم کو خاک 


خاک عزا سے گیسوئے زینب کئے نہ پاک 


یثرب میں جا کے دیکھو لباس حرم ہے چاک 


اور کربلا میں حوروں کی ہے آہ دردناک 


فوج حسینؑ کا ہوا جنگل میں خاتمہ 


زینبؑ وطن میں روتی ہے مقتل میں فاطمہؑ 


43 


سن آیا کربلا میں فرشتوں کی میں فغاں 


ستر ہزار واں مع فطرس ہیں نوحہ خواں 


دیکھ آیا غش میں فوج خدا کی شکوہ و شاں 


رنگیں کفن گلوں میں جراحت سے خوں رواں 


اذن جہاد مانگا جو رو کر غلام نے 


عباسؑ نے تو سیف رضادی امام 


44 


ہاں طالبان خون حسینؑ آؤ جلد آؤ 


مانند تیغ جوہر مردانگی دکھاؤ 


حق تم کو آزماتا ہے تم دل کو آزماؤ 


سردو تو کربلا کے شہیدوں کا رتبہ پاؤ 


جس کا عقیدہ پاک ہے وہ کامیاب ہے 


اب بھی وہی جہاد کا اجر و ثواب ہے 


45 


یہ خلہ ہے یہ میوہ یہ کوثر ہے یہ جناں 


یہ حور یہ قصور یہ طوبیٰ یہ بوستاں 


یہ جنس آبرو ہے یہ بیعانہ نقد جاں 


یہ گویا رزمگاں یہ چوگاں یہ امتحاں 


یہ سر ہے یہ بدن یہ کفن ہے یہ تیغ ہے 


شیر خدا کے شیروں کو پھر کیا دریغ ہے 


46 


یہ سن کے تازہ دم ہوئے حیدرؑ کے د وست دار 


مردے ہوں جیسے قم قم عیسی سے ہوشیار 


کافور ہفت عضو پہ مل مل کے ایک بار 


نکلے پہن پہن کے کفن بہر کارزار 


کوچوں میں یہ ہجوم خلائق کا حال تھا 


سائے کو ساتھ لے کے گزرنا محال تھا 


47 


بہر جہاد پیروں نے فورا کیا خضاب 


اہل شباب سمجھے خزاں موسم شباب 


کنگنا کسی نے کھول کے باندھی کمر شتاب 


مشاطہ کو کسی نے دیا بیاہ کا جواب 


کہتے تھے فکر عقد نہ خواہش دلہن کی ہے 


شادی قصاص خون شہ بے وطن کی ہے 


48 


زہراؑ کی لونڈیوں کے عقیدوں کو دیکھنا 


بچوں کو لا کے جھولے سےمردوں کو دے دیا 


پوچھا جو وارثوں نے تو رو رو کے یہ کہا 


دعویٰ انہیں بھی ہے علی اصغرؑ کے خون کا 


ظلم و جفائے لشکر بے پیر یاد ہے 


اصغرؑ کا حلق یاد ہے اور تیر یاد ہے 


49 


سب نقش دل سے حیدریوں نے مٹادیئے 


بیٹوں کو اپنے خلعت عقبیٰ پنہا دیئے 


نوشاہوں کو سلاح عروسوں نے لادیئے 


اور مہر بخش کر یہ سخن بھی سنادیئے 


ظلم عدو یہ لکھ لو دل پاش پاش پر 


اک شب کی بیاہی روئی تھی دولہا کی لاش پر 


50 


فوجوں سے اس قدر ہوئی معمور حرب گہہ 


باقی رہی علم کے کھڑے ہونے کی جگہ 


ترتیب میمنہ ہوئی ترکیب میسرہ 


قلب و جناح سے ہوئی آراستہ سپہ 


کوفہ سلاح پوشوں سے آباد ہوگیا 


تختہ زمیں کا بیضۂ فولاد ہوگیا 


51 


کیا دوستان شاہ نجف کی کروں ثنا 


نازاں تھی جن کے حسن عقیدت پہ خود ولا 


لشکر میں چار حافظ قرآں جدا جدا 


پڑھتے تھے چار سمت فصاحت سے ہل اتیٰ 


جبریل واں فلک پہ خضرؑ یاں زمین پر 


دم کرتے ہیں دعائیں سبھوں کی جبین پر 


52 


ہاں مومنو یہ فوج ہی فوج امام ہے 


مد نگہ نظارۂ ہر خاص و عام ہے 


ہشیار جبرئیل کا یاں اہتمام ہے 


جاسوس عقل و فکر و تصور کا کام ہے 


یوں محو ہو کے سیر کرو ان کے اوج کی 


آنکھوں میں مثل سرمہ پڑے گرد فوج کی 


53 


پیر و جواں کھڑے ہیں برابر چہل ہزار 


تیر و کماں کی طرح مہیائے کارزار 


کہتی ہے روح فاطمہؑ حسرت سے بار بار 


ہے ہے نہ کربلا میں ہوئے یہ رفیق و یار 


جب رن کے قصد تھا خلف بوتراب کو 


جنت سے آ کے تھاما تھا میں نے رکاب کو 


54 


مختار کے غلام میں دو صاحب ہنر 


اک فتح ایک خیر نہیں جن کے دل میں شر 


جب ہو غلام فتح تو کیونکر نہ ہو ظفر 


پیدا ہے فتح طالع مختار نامور 


اک دیکھتا ہے ایک کے رخ کو سپاہ میں 


مصحف کو ختم کرتے ہیں سب اک نگاہ میں 


55 


نازل یزیدیوں پہ جو حق کا غضب ہوا 


اجماع دوستان امیر عرب ہوا 


ماتم حسینوں کا عدالت طلب ہوا 


مختار نامور کو یہ الہام رب ہوا 


ہاں بند راہ فتنے کی تیغ رواں سے کر 


ہاں فتح باب فتح کلید سناں سے کر  


56


لہرا رہا ہے غازیوں کے سر پہ وہ علم 


دامن پہ جس کے نام علیؑ ولی رقم 


پھر یہ علم ہے دست علمدار میں علم 


یا بہر استغاثہ اٹھا نالۂ حرم 


پنجے سے اس کے چہرۂ خورشید زرد ہے 


زنیت کا مد آہ ہے رتبے میں فرد ہے 


57 


چہرے پہ نوجوانوں کے پیدا خط شباب 


اک نقطہ ان کے خال کا ہے حسن کی کتاب 


دیکھیں جو آئینے میں خط رخ کی آب و تاب 


جوہر خط شعاع ہو آئینہ آفتاب 


رخ پر عرق کو دیکھ کے حیرت بڑی ہوئی 


ہے دن کو آفتاب پہ شبنم پڑی ہوئی 


58 


رخ پر ہیں قطرہ ہائے عرق در آبدار 


یا ایک برگ گل کے نگہبان ہیں ہزار 


خورشید پر ستارے ہیں غلطیدہ بے شمار 


یا ماہتاب کے ہیں جگر گوشے آشکار 


جس دم ڈھلیں یہ عارض پر آب و تاب سے 


سیارے ہوں فلک پہ ثوابت حجاب سے 


59 


آنکھوں سے آشکار ہےعلم و حیا تمام 


خورشید و ماہ آنکھ چراتے ہیں صبح و شام 


کیا میم مردمک کی ضیا میں کروں کلام 


شمس و قمر کے دل میں ہے اس میم کا مقام 


چشم سیہ کا وصف ہے باہر حساب سے 


آنکھوں میں چھپتا پھرتا ہے سرمہ حجاب سے 


60 


پیشانیوں کا ان کی کہوں کیا جلال و جاہ 


تاریک شب میں بھی اگر ان پر کو نگاہ 


پڑھ لو نماز صبح فضیلت کے وقت واہ 


خال جبیں سفیدے کی جا صبح کا گواہ 


ابرو سے تیس شب ہے نظارہ ہلال کا 


حد حساب ایک ہے یاں ماہ و سال کا 


61 


مکتوب حسن گردن انور بہ تاب و آب 


اک مد ہلال اس کا ہے اک فرد آفتاب 


گوہر طرف پڑا ہے شب زلف کا حجاب 


لیکن عیاں ہے مطلع گردن کی آب و تاب 


گردن کا نور گیسووں سے آشکار ہے 


خورشید نکلا پردۂ شب تار تار ہے 


62 


رخ گلشن بہشت ہے غیرت دہ ارم 


نہر اس میں شیر و شہد کی دندان و لب بہم 


ہے خط رخ و ہ خوب کہ لکھیں ثنا جو ہم 


اصلاح سے بری ہو یہ سب نظم یک قلم 


کیونکر کوئی نوشتۂ حق کو غلط کہے 


جس کو سواد خط نہ ہو وہ اس کو خط کہے 


63 


بینی کا کیا قلمر و رخ پر ہے عز و جاہ 


زیر قلم ہے حسن کا کشورازل سے آہ 


چہرے کو چاند کہتے ہیں سب صاحب نگاہ 


بینی ہے بیچ میں کہ الف درمیان ماہ 


بینی کے وصف لکھنے کی کیوں آرزو نہ ہو 


بے اس الف کے لاکھ لکھو آبرو نہ ہو 


64 


وصف دہان تنگ میں عالم کشادہ لب 


اک نقطے میں زمانے کا مضموں بھرا ہے سب 


انگشت حیف ہے تہ دنداں کہ ہے غضب 


وہ کربلا میں خشکی حلق شہ عرب 


مرنے پہ منہ کھلا تھا شہ مشرقین کا 


نیزے سے کٹ گیا لب بالا حسینؑ کا 


65 


دنداں ذرا بھی وقت تبسم جو ہوں عیاں 


مثل صدف کہر سے ہو لبریز آسماں 


شکر فروش مصر حلاوت ہر اک زباں 


رنگینی کلام ہے شیرینیٔ بیاں 


حیراں لبوں کے نور سے اہل کمال ہیں 


یہ ہونٹ ہیں کہ زیر و زبر دو ہلال ہیں


66

 


موئے کمر کی یہ قد گلگوں میں ہے بہار 


جس طرح لعل سے ہو رگ لعل آشکار 


پٹکے سے اور بھی ہوا یہ نقطہ پیچیدار 


معنی میں عقل و فہم الجھتے ہیں بار بار 


سادہ ہی نقش رہنے دیا اس مراد کا 


کھل جائے گا بندھا ہوا مضموں جہاد کا 


67 


قد راستی سے سایہ صفت پیرو امام 


جاکر حریم باغ میں گر یہ کریں قیام 


اپنا امام جان کے ہر قد کو لا کلام 


سرو چمن نماز پڑھیں پشت پر تمام 


ارزاں ملے تو مول یہ طوبیٰ کو لیتے ہیں 


بیعانہ سدرہ کا الف قد سے دیتے ہیں 


68 


خوبی و فور نور بدن کی ہے یہ عیاں 


کڑیاں زرہ کی ہیں رگ جاں کی طرح نہاں 


جو شے نظر نہ آئے کروں اس کا کیا بیاں 


سب کو گماں زرہ کا ہے لیکن زرہ کہاں 


صاحب ہنر محب ہیں شہ ذوالفقار کے 


پہنا ہے بر میں تیغوں کا جوہر اتار کے 


69 


ہیں خودوہ کہ جن سے بروج فلک ہیں کم 


ہاتھوں میں یک قلم الف تیغ ہیں علم 


خط شکست فرد سپر پر کریں رقم 


دیکھو کمان و تیر بھی ہیں نون و القلم 


نور سپر کے جلوے سے پر نور ہے زرہ 


یہ طور ہیں تو سورۂ والطور ہے زرہ 


70 


حسن سلاح یہ ہے سنو زور کا بیاں 


پائے شکوہ کوہ پہ رکھیں جو یہ جواں 


سرمہ ہو کوہ چار طرف چشمے ہوں رواں 


چاہیں زمیں بلند کریں مثل آسماں 


جب کہہ کے یا جناب امیرؑ آئیں جوش پر 


مثل سپر فلک کو بھی رکھیں یہ دوش پر 


71 


پنجے سے گر یہ کلۂ رستم کو دیں فشار 


دنداں نکل پڑیں صفت دانۂ انار 


مثل زرہ یہ جوہر فولاد لیں اتار 


نعرہ کریں تو کوہ صدا دیں نہ ایک بار 


جب یا حسینؑ کہہ کے یہ قبضے کو چوم لیں 


یوسفؑ سے مصر لیں تو سکندر سے روم لیں 


72 


ہمت یہ ہے جو زرنہ ہو یہ سر عطا کریں 


جرأ ت یہ ہے کہ لاکھوں سے تنہا دعا کریں 


طلعت یہ ہے کہ ذرے کو شمس الضحیٰ کریں 


قدرت یہ ہے کہ شمع سے شعلہ جدا کریں 


دشمن اگر فلک پہ بھی وقت جدال جائے 


تیغ ان کی آسمان پہ مثل ہلال جائے 


73 


ہو آگ سرد خوف سے یہ گرم ہوں اگر 


لو ہا ہو موم سنگ ہو پانی دم نظر 


آہستہ پنجہ رکھ دیں جو دشمن کے پنجے پر 


در آئے صاف پنجے میں یوں پنجہ سر بسر 


پھر سوزن خرد کو نہ یارا رفو کا ہو 


دستانہ ان کے ہاتھ کا پنجہ عدو کا ہو 


74 


مرکب عراقی و عربی رشک حور طور 


یکساں ہر ایک راہ ہے ان گھوڑوں کے حضور 


دریا و کوہ پست و بلند و قریب و دور 


چل پھر کا امتحاں جو کریں صاحب شعور 


غصے سے یاں تلک یہ ضعیف و نزار ہوں 


تاگے کی طرح سوئی کے ناکے سے پار ہو 


75 


بال ان کے شہپر ملک الموت موبمو 


والجمع ان سے دوست پریشاں مگر عدو 


ہوں قطرہ زن تو چرخ پہ کرلے ہما وضو 


محراب نعل میں رہے سجدے کی آرزو 


بے بال و پر مثال شرر اڑتے پھرتے ہیں 


بن بن کے بجلیاں صف دشمن پہ گرتے ہیں 


76 

 


جلاد کربلا کے ہیں موجود اس طرف 


خولی و شیث و ابن ربیعئ ناخلف 


وہ یا یزید کہتے ہیں یہ یاشہ نجف 


تیغیں اپی ہوئی نظر آتی ہیں صف بصف 


کس پر جفا و ظلم کا واں خاتمہ نہیں 


ہاں بہر ذبح اک پسر فاطمہؑ نہیں 


77 


گوپال آ ہنی لیے اک سمت بد گہر 


بھالے سنبھالے دوش پہ اک طرف نیزہ ور 


اک سولئے کمندوں کے حلقے زبوں سیر 


تھے اپنے اپنے غول میں وہ غول سر بسر 


گرز گراں تھے بعض گراں سر لئے ہوئے 


بعضے شریر صارم وجمدھر لئے ہوئے 


78 


وہ رستمان حرب عرق و عرب کے بل 


وہ ٹولیاں سواروں کی وہ پیدلوں کے دل 


وہ ڈانڈ پر چمکتے ہوئے برچھیوں کے پھل 


سریاں وہ گول گول وہ پیکان چو پہل 


اڑنا وہ بیرقوں کا لچکنا نشانوں کا 


بل کھانا رایتوں کا دمکنا سنانوں کا 


79 


تیشے لئے سواروں کے ہمراہ خیل تاش 


ہوں جن کے دست جور سے کہسار پاش پاش 


بد خواہ و بدمست و بد آئین و بد قماش 


جمالوں کی وہ صوت حدی سامعہ خراش 


محمل سے تھی کسے ہوئے آنچل ہوائے تند 


ناقے تھے یا ہوئی تھی مشکل ہوائے تند 


80 


کوسوں تلک تھے دامن جنگل میں کینہ خواہ 


کوتہ ہوئی تھی وسعت صحرا پئے سپاہ 


بھیڑ اس قدر کہ پیک نظر کو ملے نہ راہ 


فکر و قیاس وہم جہاں جا کے ہو تباہ 


ہم راہ ان خبیثوں کا رہبر مگر ہوا 


ناری دخان شعلہ بنے جب گزر ہوا 


81 


مختار نعرہ زن تھا سوئے لشکر گراں 


ہاں بہر حرب و ضرب بڑھو کھول کر نشاں 


نکلا ادھر سے مرۂ ظالم لئے سناں 


یہ وہ تھا جس نے مارا تھا اکبرؑ کو نوجواں 


یاں سے یتیم مالک اشتر رواں ہوا 


گویا کہ حلق کفر پہ خنجر رواں ہوا 


82 


حشمت ابد ابد تھی تو رونق ازل ازل 


ہستی پکارنے لگی ہر سو اجل اجل 


قالب کا روح کو تھا اشارہ نکل نکل 


بولی زمین گاوز میں سے سنبھل سنبھل 


ہاں رن میں آمد آمد مرد دلیر ہے 


یہ شیر کردگار کے شیروں کا شیر ہے 


83 


مرہ نے وہ رجز پڑھا جس سے ہوئے وہ غش 


بولا شقی میں قاتل اکبرؑ ہوں شیروش 


یہ بولے ہم ہیں فدیۂ سادات فاقہ کش 


جن کے عزیز رن میں موئے کہہ کے الطعش 


ازدر لقب دیا ہے مجھے کرد گار نے 


بخشی ہے تیغ فتح شہ ذولفقار نے 


84 


ازرق یزیدی فوج میں تھا فخر رو و شام 


نام آوروں کی تیغوں پہ کندہ تھاجس کا نام 


رہتا تھا محو ضرب شجاعوں سے صبح و شام 


اور نام ان کے لکھے تھے اک فرد پر تمام 


باندھا تھا شانے پر وہ نوشتہ غرور سے 


کم جانتا تھا زور سلیماں کو زور سے 


85 


اک دفعہ خود روم کیا اس نے زیب سر 


اور زیب جسم کی زرۂ مصر سر بسر 


چار آئینہ حلب کا سنوارا ادھر ادھر 


لٹکا لیا کمان کیانی کو دوش پر 


مکے کی ڈھال رخ پہ امید نجات میں 


ایک تیغ ہند زیر رکاب ایک ہاتھ میں 


86


جنبش میں آیا کوہ کی صورت میں وہ شریر 


گردش میں لایا نیزے کو مانند چرخ پیر 


رہوار مغربی پہ چڑھا بہردار و گیر 


زریں کمر غلام لیے سب کمان و تیر 


حیران اس کی دید سے ہر ایک جواں ہوا 


لشکر سے یا معاویہ کہہ کر رواں ہوا 


87 


جاکر حضور ابن حسنؑ اس نے دی ندا 


ازرق مرا خطاب ہے مشہور جا بجا 


اے طفل جنگجو ترا نام و نسب ہے کیا 


فرمایا نام قابض ارواح ہے مرا 


ہنگامۂ حیات کو اب فوت جانیو 


اپنے لیے مجھے ملک الموت جانیو 


88 


یہ کہہ کے اس لئیم ازل پر کیا جووار 


ابرو کی ب کو دو کیا دال دہن کو چار 


اللہ رے آتش دم شمشیر شعلہ بار 


ارزق کی تیغ پر جو پڑا عکس ایک بار 


مثل سپند جوہر شمشیر اڑ گئے 


رن کی زمیں سے اختر سیار مڑ گئے 


89 


کیا کاٹنے میں آب دم تیغ تیز تھا 


تیزاب سے بھی تیز بوقت ستیز تھا 


رہوار بے حواس دم جست و خیز تھا 


پر لنگ انکے ہاتھ سے پائے گریز تھا 


پٹکا پکڑ کے لے گئے یوں اس کو زین سے 


وہ زین سے جدا ہوا مرکب زمین سے 


90 


ہم میں بھی ہیں انہیں کے کرم سے یہ سب ہنر 


سن ہو گیا یہ سنتے ہی سر ہنگ خیرہ سر 


جینے سے ہاتھ اٹھا کے لگائی سناں مگر 


غازی نے دار خالی دیا رخش پھیر کر 


پھر نیزہ کاٹا تیغ سے یوں ایک ضرب میں 


اک نصف شرق میں گرا اک نصف غرب میں 


91 


نیزے کے بدلے نیزہ لگا یا جو دوڑ کر 


شمع سناں کا ہو گیا فانوس اس کا سر 


پر وانہ وار چلنے لگے مرغ جاں کے پر 


بولے گرا کے آب دہن اس کی ریش پر 


دوزخ میں جا یزید کی خدمت کے واسطے 


دنیا میں تیرا نام ہے لعنت کے واسطے 


92 


تنہا ادھر تھے آپ ہزاروں شقی ادھر 


اس پر نہ تھا ہر اس زہے دل خوشا جگر 


چلتی تھیں برچھیاں کبھی تیغیں کبھی تبر 


سب کو جواب دیتی تھی اک تیغ شعلہ ور 


پھرتی تھی جب کہ ضرب عدد روک روک کر 


دو کرتی تھی ہر ایک کو پھر ٹوک ٹوک کر 


93 


پر جس شقی پر عکس حسام ظفر گرا 


دو ٹکرے ہو کے نصف ادھر نصف ادھر گرا 


سائے کی طرح پاؤں پہ سردوڑ کر گرا 


غل تھا زمیں پہ کفر و ضلالت کا در گرا 


جب وقت ضرب ہاتھ میں شمشیر پھر گئی 


مالک کی سب کی آنکھوں میں تصویر پھر گئی 


94 


تن سے علیحدہ ہوئیں تیغیں مع کمر 


قرص سپر کے ساتھ اڑے تیز تیز پر 


بکتر زرہ کے ساتھ کٹے ہو کے خوں میں تر 


چلوں کے ساتھ ہاتھ تو تھے سر کے ساتھ سر 


رایت سناں کے ساتھ جھکے کانپتے ہوئے 


پرچم گرے پھر ہروں سے منہ ڈھانپتے ہوئے 


95 


اک منہ کے دو منہ آئے نظر وہ صفائے تیغ 


نابیں تھیں یادو ابروئے جنگ آزمائے تیغ 


جوہر تھی یا کہ خندۂ دنداں نمائے تیغ 


وہ چم وہ خم وہ باڑھ وہ بانکی ادائے تیغ 


زخموں کے گل کھلے جو وہ گلگوں قبا چلی 


دل پس گئے جدھر کو وہ نازک ادا چلی  


96

 


پڑھتی ہوئی زبان سے ناد علی پھری 


تعزیر اہل شام کو دی جان لی پھری 


سینوں میں اور دلوں میں خفی اور جلی پھری 


کس کس ادا و ناز سے اٹھی چلی پھری 


دامان دشت خون سے گل رنگ ہوگیا 


بھاگاجو اسپ کوئی تو چورنگ ہوگیا 


97 


وہ دم کس اس کا اور وہ چم خم و آب و تاب 


آفت کی باڑھ قہر کا کاٹ اور غضب کی آب 


جس ناب سے کہ زہرۂ رستم ہو خون ناب 


دریائے تیغ ہر پل محشر کا تھا جواب 


دریا چڑھا وہ خوں کا کہ پیراک ڈر گئے 


نالوں کے پل پہ سر بدنوں سے اتر گئے 


98 


بسمل پڑے تھے دن میں کہیں کہہ کہیں پہ مہ 


نیزوں کے بند قرص سپر حلقۂ زرہ 


کھولی اجل نے ناخن تدبیر سے گرہ 


استادہ خاک پر کہیں سیسر کہیں پہ زہ 


جمدھر کہیں عمود کہیں برچھیاں کہیں 


ترکش کہیں خدنگ کہیں اور کماں کہیں 


99 


شپیرؑ کے غلاموں سے کہتے تھے اشقیا 


تم کیا ہو ہم پہ ورنہ ہوئے شاہ دوسرا 


ہم نے قلم کیا سر فرزند مرتضیٰ 


ہم نے رسولؐ زادیوں کی چھین لی قبا 


زندہ خدا کرے اگر ابن بتولؑ کو 


پھر کاٹیں بوسہ گاہ جناب رسولؐ کو 


100 


اصغرؑ جو زندہ ہو تو ابھی تیر پھر لگائیں 


زخمی کریں جگر کو جو اکبرؑ کا سینہ پائیں 


شانے امام حسینؑ کے بازو کے کاٹ لائیں 


مقدور ہو تو بلوے میں سادات کو پھرائیں 


منظور قتل عام کی اب سیر ہے تمہیں 


شر ہم سے کرنے آئے ہو کچھ خیر ہے تمہیں 


101 


دیتے تھے یہ جواب غلامان مرتضی 


ہاں یہ غرور ہے تمہیں اے لعنت خدا 


واں رحم تھا کرم تھا مروت تھی صبر تھا 


جتنا خدا کا حکم تھا اتنا ہر اک لڑا 


چمکی تھی تیغ جب کہ شہ کم سپاہ کی 


کس نے دہائی دی تھی رسالت پناہ کی 


102 


خیر ان کی ان کے ساتھ شجاعت تھی یا کرم 


اب آج اس طرح سے لڑو تم تو جانیں ہم 


لیکن حلال خون عدوئے امام ہے 


تم کو بھی ماریں بچوں کے سر بھی کریں قلم 


کھانا ہمیں حرام ہے پینا حرام ہے 


لیکن حلال خون عدوئے امام ہے 


103 


اک دن میں دیکھ لیجیو کس کس کا خون بہا 


کس کس کی عورتیں پھریں کوچوں میں بے ردا 


سب کچھ یہ ہم کریں گے مگر وا مصبتا 


دل سے مٹے گا داغ نہ زینب کی قید کا 


کونین ہوں جو قتل تو راضی خدا نہ ہو 


یعنی حسینؑ فاطمہؑ کا خوں بہانہ ہو 


104 


جب خون ناحق شہدا جوش زن ہوا 


اور انتقام کا ترو تازہ چمن ہوا 


مختار مورد مدد پنچتن ہوا 


محو قصاص قتل شہ بے کفن ہوا 


کوفہ سلاح پوشوں سے آباد ہوگیا 


تختہ زمیں کا بیضۂ فولاد ہوگیا 


105 


آیا ادھر سے جب ورقہ جنگ کو ادھر 


قبضے میں تیغ سطر تھی اور نقصے کی سپر 


اس نامور نے تیغ کے ڈورے سے سربسر 


مسطرپئے رقم کیا ورقہ کے جسم پر 


تنخواہ زخم دے کے دل افسردہ کردیا 


ورقہؔ کا چہرہ فرد برآوردہ کردیا


106

 


بولی اجل کے ٹکڑے برابر ہوئے ہیں چار 


پر بے دلیل عقل کو آیا نہ اعتبار 


رگ رگ کو عضو عضو کو اس نے کیا شمار 


گن ڈالے موئے کاسۂ سر بھی سب ایک بار 


کیا ہاتھ تھا تلا ہوا اس خوش خصال کا 


ٹکڑوں میں سر کے فرق نہ تھا ایک بال کا 


107 


اسحاقؔ نام آ کے ہوا پھر تو رزم خواہ 


درہ اسی نے مارا تھا بنت علیؑ کو آہ 


تیغ سفید دوش پہ رکھے تھا روسیاہ 


غازی نے ہاتھ زیر بغل سے بڑھا کے واہ 


یوں نوک تیغ کھینچی کہ غش وہ بھی کر گیا 


قبضہ تو ہاتھ میں رہا اور پھل اتر گیا 


108 


تو طرفہ بے خودی کہ نہ ان پہ ہوا گماں 


سمجھا کسی نے پشت پہ کی دزدیٔ نہاں 


دیکھا قفا کو تیغ کا پھل تھا وہاں کہاں 


پر تیغ ابن مالک اشتر پڑی یہاں 


رخ تو ادھر تھا فرق جسد پر ادھر نہ تھا 


واں دیکھا پھل نہ تھا جو مڑایاں تو سر نہ تھا 


109 


آکر دغا طلب ہوا پھر خازن عمر 


نام اس کا در ہمی تھا سیہ قلب بدسیر 


شکل فلوس تن پہ زرہ آتی تھی نظر 


تیغ ان کی مثل سکہ ہوئی اس پہ کار گر 


یوں تیغ خوردہ ہو کے زمیں کے تلے گیا 


گویا چرا کے دزد اجل اس کو لے گیا 


110 


لکھا ہے تہ نشیں ہوا افسل مثال دُرد 


مردہ نہ پایا ڈھونڈ پھرے گو بزرگ و خرد 


تحت الثریٰ کو قہر خدا نے کیا سپرد 


تھا درہمی زمیں نے کیا اس کو خورد برد 


قارون کے خزانہ میں وہ تیرہ دل گیا 


یہ درہمی بھی درہموں میں جاکے مل گیا 


111 


آئی ندا علیؑ کی کہ شاباش میرے شیر 


مختار بولا ایدک اللہ اے دلیر 


اب ہم لڑیں گے دم لو وغا کو ہوئی ہے دیر 


تم سیر ہوگے خون سے ان کے نہ بندہ سیر 


ہاں بڑھ کے کیا ہٹو کہ علیؑ کے غلام ہو 


سقے کو بھیج دوں تم اگر تشنہ کام ہو 


112 


بولا وہ مڑ کے پیاس تو ہے پر نہیں ہراس 


سقہ کھڑا ہوا ہے سکینہؑ کا میرے پاس 


کہتے ہیں پانی پی لے جو تجھ کو لگی ہے پیاس 


آقا کو میرا دھیان ہے آقا کو میرا پاس 


پانی کا نام زہر سے اس دم زیاد ہے 


وہ کربلا کا پیاسا بھی کچھ تم کو یاد ہے 


113 


ناگاہ اس طرف سے کماندار اک بڑھا 


استاد اپنی فی میں تھا وہ بانی جفا 


سوفار لب کو وا کئے دیتے تھے بددعا 


چلہ کماں نے باندھا تھا جلد اس کو ہو قضا 


بھاگا لگا کے تیر وہ تیر رواں کی شکل 


غازی نے بڑھ کے کھینچا گریباں کماں کی شکل 


114 


تیغ اس نے کی حوالۂ رو جلد کھینچ کر 


وہ آنکھ پر پڑی پہ ہوئی کچھ نہ کار گر 


ابرو کی تیغ چشم کو جیسے نہ دے نظر 


غازی نے زہ کماں کو کیا اور کہا ٹھہر 


اک جنبش مژہ میں اسے کور کردیا 


پلکوں کی طرح تیروں سے آنکھوں کو بھردیا 


115 


جب ایک ایک ورنہ ہوا بانی جفا 


باہم دہل بجاتے بڑھے سارے اشقیا 


طبل خروج یاں بھی بجا پھر تو جا بجا 


لشکر سے لشکر آ کے غرض راہ میں ملا 


ناحق گروہ ظلم جو شیعوں سے لڑتا تھا 


خون گلو انہیں کا گریباں پکڑتا تھا  


116

 


میداں میں فوج لڑتی تھی باہم ادھر ادھر 


افسر تھا ان کا روکش مختار نامور 


دونوں کا یوں مقابلہ جس طرح خیر و شر 


گہہ دور گاہ پاس گہے وقفۂ ہنر 


مل کر کبھی سپر سے سپر منہ کی کھا گئی 


لڑ کر کبھی سناں سے سناں لڑکھڑا گئی 


117 


آیا نہ اس کی فوج سے کوئی پئے مدد 


اک دو کے بیچ میں نہیں جیسے کوئی عدد 


مہر سپر کی تیغ نے مانی نہ کچھ سند 


جس طرح خار سے سپر آبلہ ہو رد 


بل رشتۂ کمر کی گرہ سے نکل گیا 


چھن چھن کے دل کا درد زرہ سے نکل گیا 


118 


شرما کے وہ تو بھاگ گیا صورت شرر 


مختار سوئے فوج پھرا سینہ تان کر 


انگشتری کی طرح سے سرہائے اہل شر 


نیزے کی پور پور میں آنے لگے نظر 


ہر چشم میں سناں پہ چبھوتا تھا خشم میں 


پتلی نہ مثل دیدۂ سوزن تھی چشم میں 


119 


کھینچا بغل میں تنگ زرہ پوش کو اگر 


کڑیاں رگوں کی طرح چبھیں تن میں سر بسر 


اور سر میں ضرب مشت لگائی جو دوڑ کر 


نکلا مثال آبلہ تلوے سے خود سر 


اک دم میں خون فوج کے دریارواں ہوئے 


کیا یسفک الدما کے معنی عیاں ہوئے 


120 


شامی کو زور حشر کا نقشہ دکھادیا 


رومی کے دل سے رتبۂ قیصر بھلا دیا 


مصری کو زہر خنجر ہندی پلا دیا 


کوفی کو کاف مرگ کا مرکز بنادیا 


اہل حلب تھے شیشہ صفت چور تیغ سے 


زنگی کو مثل زنگ کیا دور تیغ سے 


121 


غازی تھے محو رزم لیے تیغ اور سپر 


پیدا ہلال فتح بھی تھا اور شب ظفر 


کٹ کر نشان ان کے گرے تھے ادھر ادھر 


انبار نیزہ و سپر و تیغ و خود وسر 


تھا شور الحذر فلک بے دریغ سے 


دل چاک تھا زمیں چکا چاک تیغ سے 


122 


مختار کہتا تھا کہ بروح ابوتراب 


ڈوبے گی جب تلک نہ لہو سے مری رکاب 


میں خانماں کروں گا ستمگاروں کا خراب 


کی شیعۂ علیؑ کی دعا حق نے مستجاب 


خون آ کے اس کے پاؤں پڑا قتل گاہ میں 


یعنی کہ بس کوئی نہیں باقی سپاہ میں 


123 


مختار نامور نے کیا سجدۂ خدا 


قاتل جو کچھ رہے تھے اسیران کو کرلیا 


شمر وسناں تھے حرملا تھا ابن سعد تھا 


کی بزم عیش صبح کو ایوان میں بپا 


جلوہ زیادہ ہوگیا بزم مراد کا 


دو عیشیں تھیں کہ آیا سر ابن زیاد کا 


124 


سب قاتلوں کو بزم میں بلوا کے یہ کہا 


کیوں آہ فاطمہؑ کا اثر آج تو کھلا 


پھر حرملہ کو تو دہ کیا تیر عدل کا 


اہل خطا پہ چلنے لگے تیر بے خطا 


تلوار سے پیام اجل برملا دیا 


پھر بورئیے میں رکھ کے بدن کو جلا دیا 


125 


ناری ہوا جو خاک تو دی عدل نے ندا 


بس آج سرمہ دیدۂ انصاف کو ملا 


پر خاک ہونے پر بھی صدا تھی جلا جلا 


اور سر کیا عمر کابھی دیداروں نے جدا 


دوڑا کے گھوڑے لاش پہ سب حرف زن ہوئے 


پامال اس کے حکم سے ستردو تن ہوئے 


126 


تھرایا شمر دیکھ کے یہ حالت عمر 


سب نے گرایا پشت بخاک اس کو کھینچ کر 


اک سنگ لا کے چھوڑ دیا اس کے سینے پر 


رویا شقی تو بولا یہ مختار خوش سیر 


خاموش استغاثہ نہ اے بدنہاد کر 


وہ بیٹھنا حسینؑ کے سینے پہ یاد کر 


127 


زینبؑ خداکے واسطے دیتی رہی اور آہ 


بیٹھا رہا تو سینے پہ سید کے بے گناہ 


بنت سکینہؑ کرتی رہی وا محمداہؐ 


کاٹا کیا تو چین سے احمدؐ کی بوسہ گاہ 


انجام ہے یہ خون شہ بے گناہ کا 


دیکھا اثر جناب رسالتؐ کی آہ کا 


128 


یہ کہہ کے سر اتار لیا تن سے ایک بار 


پھر تو سناں پہ چلنے لگے برچھیوں کے وار 


غل تھا یہ ہے وہ دشمن مولائے بے دیار 


بالشت بھر جگہ سے ہوا جس کا نیزہ پار 


شہ رگ جو کاٹی تیغ سے اس روسیاہ کی 


مردود نے تو آہ کی ہاتف نے واہ کی 


129 


ہنگامۂ قصاص تھا برپا کہ ناگہاں 


مسلم کے اک یتیم کا قاتل ہوا عیاں 


تھامے ہوئے تھا مرکب زخمی کی وہ عناں 


آنسو تھے دونوں آنکھوں سے اس گھوڑے کے رواں 


راکب کی یاد دیکھ کے مرکب کو آگئی 


وہ آہ سب نے کی کہ زمیں تھر تھرا گئی 


130 


ناگاہ ایک بچہ وہاں آیا رشک ماہ 


منہ بھولا بھولا رخ پہ سیادت کا عزو جاہ 


پر ٹوپی اس کے سر پہ نہ کرتا گلے میں آہ 


گیسو پہ خاک ڈالے ہوئے مثل داد خواہ 


فاقے سے تھا یہ حال کہ جان اس کی جاتی تھی 


آواز استخواں سے لرزنے کی آتی تھی 


131 


قاتل کے گرد جمع تھے مومن ادھر ادھر 


مختار تک نہ جا سکا وہ غیرت قمر 


فاقے سے گر کے رونے لگا در پہ بیٹھ کر 


مختار بولا کون یہ ہے لاؤ تو خبر 


سب نے کہا غریب سا اک لڑکا روتا ہے 


جرأت نے دی ندا کہ یہ مسلم کا پوتا ہے 


132 


محفل میں اس کو لا کے مخاطب ہوئے بشر 


سید تمہارا نام کہا اس نے بے پدر 


بے کس یتیم مسلم بیکس کا ہوں پسر 


مختار بولا سیدنا آئے تم کدھر 


رو کر کہا کہ وقت میں یاں تک خلل پڑا 


فاقوں کے مارے بھائی میں گھر سے نکل پڑا 


133 


محفل میں سب نے نوحہ کیا وا محمدؐاہ 


یہ حال مصطفےٰ کے یگانوں کا آہ آہ 


مختار نے پنہایا اسے کرتا اور کلاہ 


وہ بولا میری ماں بھی ہے عریاں خدا گواہ 


مختار نے دراہم و خلعت منگادیئے 


سید نے چھوٹے ہاتھ دعا کو اٹھا دیئے 


134 


مختار نے کہا کہ طلب کچھ تو اور کر 


بولا دکھا کے باپ کے قاتل کو وہ پسر 


بس یہ ہے آرزو کہ ہمیں کاٹیں اس کا سر 


اک نیمچہ منگا کے دیا اس نے جلد تر 


فاقوں سے گونقیہ بہت وہ یتیم تھا 


پر نیمچہ جو مارا تو قاتل دو نیم تھا 


135 


پھر نیزوں پر علم کئے مختار نے وہ سر 


اور کشتیوں میں اس نے دھرا رخت و مال و زر 


بولا یہ دوستان علیؑ سے وہ خوش سیر 


لے جاؤ ہے یہ ہدیۂ سجاد نامور 


کہنا کوئی حسینؑ کا قاتل رہا نہیں 


پر بے حسینؑ جینے کا اپنے مزا نہیں 


136 


زینبؑ کو میری سمت سے یہ دیجیو پیام 


اے سیدہ حسینؑ کا تو کب ہے انتقام 


پر قاتلوں کو قتل کیا میں نے لاکلام 


رخت سیہ اتار اب اے خواہر امام 


آئی ندا وہ سوگ نہ حاشا اتارے گی 


زینبؑ اتارے گی تو نہ زہراؑ اتارے گی 


137 


لے کر چلے یہ ہدیہ غلامان بوتراب 


مثل نزول رحمت حق پہنچے واں شتاب 


اس دم مگر ہوئے در عابد پہ بار یاب 


جب چاشت کھا رہے تھے امام فلک جناب 


بچوں پہ ہو نہ فاقہ یہ مطلب تمام تھا 


ان کا تو ماحضر غم قتل امام تھا 


138 


فضہ کو مومنوں نے بلایا قریب در 


وہ سر بھی کشتیاں بھی اسے سونپیں سربسر 


مختار کا پیام کہا ہاتھ باندھ کر 


فضہ وہ ہدیے لے گئی زینبؑ کو دی خبر 


دن آج تو خدا نے دکھایا مراد کا 


بی بی مبارک آیا سرابن زیاد کا 


139 


حجرے میں اپنے بھائی کے وہ کرتی تھی بکا 


آہ و فغاں کے دھیان میں اس نے نہ کچھ سنا 


بولی مبارکی کسے دیتی ہے کیا ہوا 


اٹھ آیا کیا مزار سے دل بند مصطفیٰ 


کیا جیتا قتل گاہ سے اکبرؑ پھرا مرا 


کیا گھنٹیوں مدینے میں اصغرؑ پھرا مرا 


140 


وہ بولی قاتلوں کے سر آئے جدا جدا 


زینبؑ پکاری آئے تو آنے دے مجھ کو کیا 


ایسے شقی اگر ہوئے بے سرہزارہا 


داغ حسینؑ مٹتا ہے دل سے کہیں بھلا 


محشر تلک رہے گا یہ ناسور سینے میں 


ہے ہے حسینؑ قبر میں زینبؑ مدینے میں 


141 


مرجانہ کے پسر کا جو عابدؑ نے دیکھا سر 


بولے حرم سے قدرت حق پر کرو نظر 


اک دن وہ تھا کہ کھاتا تھا کھانا یہ بد سیر 


جب شمر لے گیا تھا سر شاہ بحر و بر 


بارہ گلے بندھے ہوئے اک ریسمان سے 


ہم تم کھڑے تھے چپکے اسیروں کی شان سے 


142 


اور ایک روز یہ ہے کہ ہم کھاتے ہیں غذا 


سر اس کا میرے سامنے یہ ہے دھرا ہوا 


سجدے کو گر پڑے حرم شیر کبریا 


آئیں گھروں سے عورتیں سن کر یہ ماجرا 


ہر سر کی سمت کو یہ حرم کا اشارا تھا 


لوٹا تھا اس نے اس نے ہمیں نیزہ مارا تھا 


143 


دیکھا سکینہؑ نے جو سر شمر بد صفات 


گرنے لگی وہ سہم کے صغراؑ کا تھامے ہاتھ 


بولی بہن ڈرو نہ ہے ڈرنے کی کون بات 


انگلی اٹھا کے آہ پکاری وہ نیک ذات 


کیوں کر نہ میں ڈروں کہ بہت صدمے پائے ہیں 


صغراؑ ہمیں اسی نے طمانچے لگائے ہیں 


144 


عابدؑ سے یہ کہا کہ ذرا مجھ کو دو یہ سر 


لے جاؤں اس کو قبر رسالتؑ پناہ پر 


اور قبر کو ہلاؤں کہ یا سید البشر 


حاضر ہے شمر جس نے لیا ہے مرا گہر 


پوچھو تو کیا جواب یہ دیتا ہے آپ کو 


مارا ہے کس خطا پہ سکینہؑ کے باپ کو 


145 


ناگہ کیا امام نے ان کشتیوں کو وا 


دیکھا سفید کپڑوں کو اور آگئی حیا 


رو کر زنان ہاشمیہ سے یہ پھر کہا 


سمجھاؤ تم پھوپھی کو کہ بس ہوچکی عزا 


حجرے سے باہر آتی ہے نے پانی پیتی ہیں 


اعجاز ہے حسینؑ کے غم کا کہ جیتی ہیں 


146 


کہنا مری طرف سے کہ اے صاحب عزا 


شپیرؑ کی عزا کا تمہیں اجر دے خدا 


یثرب میں اب تلک کوئی دولہا نہیں بنا 


سرمہ زنان ہاشمیہ نے نہیں دیا 


یہ تو وہ غم ہے حشر تلک خلق روئے گی 


پر اب مدینے والوں کو تکلیف ہوئے گی


147 


لائیں جو کشتیاں سوئے زینبؑ وہ نوحہ گر 


دیکھا زمیں پہ بیٹھی ہے تنہا جھکائے سر 


نام حسینؑ لکھتی ہیں انگلی سے خاک پر 


لے کر بلائیں حرفوں کی ملتی ہیں چشم پر 


سب گرد بیٹھیں رونے کو منہ ڈھانپ ڈھانپ کر 


قبر رسولؑ رہ گئی بس کانپ کانپ کر 


148 


جب رو چکیں تو کشتیوں کو کھول کر کہا 


یہ کپڑے سب ہیں ہدیۂ مختار باوفا 


ہم صدقے سوگ اتارئیے اے بنت مرتضی 


اب تک کسی نے ہم میں سے شانہ نہیں کیا 


ہم کپڑے پہنیں آب بھی وعدہ جو لیجئے 


دیں سرمہ ہم بھی آپ اگر سرمہ دیجئے 


149 


زینب پکاری آہ کہاں جاؤں اے خدا 


لوگو مجھے نہ تنگ کرو بہر مصطفی 


گھر چھوڑ دوں اگر مرے رونے پہ ہو خفا 


جنگل میں جا کے بھائی کی خاطر کروں بکا 


مرتے ہوئے بھی سوگ نہ ہرگز بڑھاؤں گی 


فردوس میں یہی کفنی پہنے جاؤں گی 


150 


کیا اک فقط حسینؑ برادر کا سوگ ہے 


اے صاحبو بتولؑ کے گھر بھر کا سوگ ہے 


اکبر کا سوگ ہے علیؑ اصغرؑ کا سوگ ہے 


کس کا اتاروں سوگ بہتر کا سوگ ہے 


اک اک برس جو سوگ کی ان کے ہوس کروں 


ماتم مسافروں کا بہتر برس کروں 


151 


شادی تمہیں جہاں میں برابر نصیب ہو 


عقد پسر عروسیٔ دختر نصیب ہو 


زینب کو ماتم علی اکبرؑ نصیب ہو 


یہ بوریائے سوگ برادر نصیب ہو 


مرتی ہوئی میں گنج شہیداں پہ جاؤں گی 


جن کا ہے سوگ قبر پہ ان کی بڑھاؤں گی 


152 


اچھا میں سرمہ دیتی ہوں خاک شفا منگاؤ 


لو سوگ میں بڑھاتی ہوں بھائی سے پوچھ آؤ 


اچھا یہ کپڑے گنج شہیداں پہ لے کے جاؤ 


مس کرکے خاک پاک سے زینبؑ کے پاس لاؤ 


ہدئیے میں سوگواروں کے یہ پیرہن دیا 


حضرت کی لاش کو نہ کسی نے کفن دیا 


153 


سر ڈھانپ لوں کہو علی اکبرؑ بھی آئیں گے 


بدلوں میں کپڑے بھائی گلے سے لگائیں گے 


عباسؑ قتل گاہ سے تشریف لائیں گے 


پونچھوں میں آنسو منہ علی اصغرؑ دکھائیں گے 


مانگو دعا بتولؑ کی جائی کے واسطے 


مرجائے روتی روتی یہ بھائی کے واسطے 


154 


زندہ ہوں صاحبو میں تمہاری نگاہ میں 


مردہ ہوں میں فراق شہ کم سپاہ میں 


زینب کہاں ہے آل رسالت پناہ میں 


وہ وقت عصر ذبح ہوئی قتل گاہ میں 


زہراؑ کے رشتہ داروں کی تقدیر پھر گئی 


سب کے گلے پہ شمر کی شمشیر پھر گئی 


155 


گر تم کو اپنے ساتھ رلاؤں گناہگار 


رونے کو گھر تمہارے جو آؤں گناہگار 


یا اپنے گھر کسی کو بلاؤں گناہگار 


مہماں جو شادی بیاہ میں جاؤں گناہگار 


شادی کی رسم اٹھ گئی اس خاندان سے 


سب تھا حسین تک وہ سدھارے جہان سے 


156 


پھر ماں کی قبر پر گئی زینبؑ برہنہ پا 


بولی پسر کو روتی ہو تنہا لحد میں کیا 


بی بی ہمارے رونے سے اب خلق ہے خفا 


دو پہلوئے شکستہ میں تھوڑی سی مجھ کو جا 


اماں بلا لو قبر میں مجھ بے نصیب کو 


ہم آپ مل کے روئیں حسینؑ غریب کو 


157 


بس اے دبیرؔ بہر فغاں یہ بھی کم نہیں 


قصے کو مرثیہ کیا روتے ہیں اہل دیں 


کس حال میں یہ حال کیا نظم آفریں 


نزدیک بزم یازدہم عارضہ قریں 


یارب نہ کوئی رنج ہو مجھ کو نہ فکر ہو 


دل میں غم حسینؑ ہو لب پر یہ ذکر ہو




شاعر اہلبیت:مرزا دبیرؔ



نوٹ: اہلبیت کی مدح میں کہے گئے کوئی بھی اشعار جو اس ویبسائٹ پر موجود نہ ہوں شامل کرنے کے لئے ہم سے رابطہ کریں۔

  Contact Us: husainiclips@gmail.com

Post top ad