تاریخ پیش کرتی ہے ایک اک تعب کی رات
مرثیہ
تاریخ پیش کرتی ہے ایک اک تعب کی رات
تدفین فاطمہ کی غم جاں طلب کی رات
ماہ صیام کی شب ضربت غضب کی رات
لیکن نظر میں آج ہے ماہ رجب کی رات
تنظیم ظلم نور سے ظلمت طلب ہوئی
جس رات میں حسین سے بیعت طلب ہوئی
بیعت طلب ستم ، روش اتقا سے تھا
بیعت طلب فریب ، رضا بالقضا سے تھا
بیعت طلب فساد، سکون بقا سے تھا
بیعت طلب گمان، یقین خدا سے تھا
بیعت طلب تھا کذب صداقت شعار سے
بیعت طلب خزاں کی روش تھی بہار سے
بیعت طلب تھی رات سحر کے پیام سے
بیعت طلب فریب تھا عقل تمام سے
بیعت طلب تھا کفر الہی نظام سے
بیعت طلب تھا جہل کا پیکر امام سے
بیعت نہیں نظام رسولاں کی موت تھی
بیعت نہیں حکومت یزداں کی موت تھی
دیں پر بنام نشر صداقت جفا ہوئی
ایماں پر ظلم و جور کی شدت روا ہوئی
قرآں کی بات بے اثر و بے صدا ہوئی
سفیانیت به طرز دگر رونما ہوئی
گفتار شام، بو بولبی ساز ہو گئی
انجام میں یزید کی آواز ہو گئی
آواز یعنی کفر سے پیماں کریں حسین
آواز یعنی دین کو قرباں کریں حسین
شرکی فضا میں نظر دل و جاں کریں حسین
پیدا زوال شرع کے عنواں کریں حسین
ٹکرایا زعم کفر کا دیں کے شباب سے
ظلمت بڑھی کہ چھین لے نور آفتاب سے
سہمی ہوئی طہارت قرآں ہے اک طرف
سمٹی ہوئی لطافت ایماں ہے اک طرف
الجھی ہوئی متانت عرفاں ہے اک طرف
میں بر جبیں شرافت انساں ہے اک طرف
جنبش کی رکی سی ہے قلب حیات کی
ٹھہری ہوئی ہے نبض عمل کائنات کی
حق کا پیام دیکھ رہا ہے سوئے حسین
فطری نظام دیکھ رہا ہے سوئے حسین
دین تمام دیکھ رہا ہے سوئے حسین
ہر خاص و عام دیکھ رہا ہے سوئے حسین
اک عالم ہراس ہے طاری جہان پر
سکتہ زمین پر ہے سکوت آسمان پر
جذ بہ یقین کا ہو کہ شک ہر طرف سکوت
اوج سماں سے تا ہمک ہر طرف سکوت
ذروں سے تا بہ مہر فلک ہر طرف سکوت
ہے درمیان جن و ملک ہر طرف سکوت
خواب سکوت جذ بہ بیدار میں بھی ہے
اک اضطراب عالم انوار میں بھی ہے
جاه و جلال آدمِ دوراں ہے مضطرب
نطق و بیان موسیٰ عمراں ہے مضطرب
عزم خلیل و نوح وسلیمان ہے مضطرب
مستقبل حیاتِ رسولاں ہے مضطرب
خاموش انبیاء کی صفیں ہیں کھڑی ہوئی
رخ سے حسین کے ہیں نگاہیں لڑی ہوئی
ہر حق پرست دیکھ رہا ہے سوئے حسین
ہر زیر دست دیکھ رہا ہے سوئے حسین
ہر بند و بست دیکھ رہا ہے سوئے حسین
عبد الست دیکھ رہا ہے سوئے حسین
آدم کا، عزت بنی آدم کی بات کا
دستور مضطرب ہے نظام حیات کا
اوج کمال دیکھ رہا ہے سوئے حسین
حسن مال دیکھ رہا ہے سوئے حسین
خود ذوالجلال دیکھ رہا ہے سوئے حسین
ہر بے مثال دیکھ رہا ہے سوئے حسین
بے چین و بے قرار دل مشرقین ہے
ہر اک کو انتظار جواب حسین ہے
ظالم کے اقتدار کی وہ ہر طرف کمند
سہمے ہوئے ہر اس کے عالم میں حق پسند
امن واماں کی راہ وہ چاروں طرف سے بند
ناگاہ ایک گونج ”نہیں“ کی ہوئی بلند
دیکھا بہ فخر خود کو علق و بتول نے
پیشانی حسین کو چوما رسول نے
صل علی حسین کی وہ حق نشاں نہیں
توفیق لا الہ کی وہ کامراں نہیں نہیں
تہذیب انقلاب کی وہ جاوداں نہیں
شان خدا، رسول کی روح رواں نہیں
عزت کی زندگی کے سلیقے سکھا دئے
منصوص رہبری کے طریقے دکھا دئے
وہ حق پر اعتماد کا اک معجزہ نہیں
زنجیر ہو کہ تیغ نہیں برملا نہیں
مکہ نہیں ، مدینہ نہیں ، کربلا نہیں
نیزے پہ بھی کئے ہوئے سر کی صدا نہیں
جو ابتدا کی بات وہی انتہا کی بات
اک بندہ خدا نے رکھی ہے خدا کی بات
وہ اک نہیں جو پیکر تحصیل کربلا
وہ اک نہیں جو دفتر تفصیل کربلا
وہ اک نہیں کے ذیل میں تشکیل کربلا
وہ اک نہیں جو سرخی تکمیل کربلا
وہ اک نہیں جو دین رسالت پناہ ہے
وہ اک نہیں جو اشہد ان لا الہ ہے
تقدیر دیں کی بگڑی ہوئی آخرش بنی
انسانیت نے سانس لی امن وسکون کی
محسن کو اپنے ڈھونڈ رہی تھی کلی کلی
شادابیوں کے گلشن حق نے صدا یہ دی
دین خدا کے تازہ گلستاں تجھے سلام
میر اعتبار بہاراں تجھے سلام
شبیر تو ہے زیست کی تعمیر جاوداں
شبیر تو ہے عزت انساں کی داستاں
تو وارث جلال و کمال پیمبراں
ہے تیرا نام دین کی تبلیغ کامراں
تجھ سے یقیں ہوا ہے خدا کی نمود کا
تو نقش لا زوال ہے حق کے وجود کا
تیرے کرم نے درد کو درماں عطا کئے
افکار کو ظہور کے عنواں عطا کئے
تو نے وقار زیست کے ساماں عطا کئے
تو نے نئے مزاج کے انساں عطا کئے
آغاز کو جلالت انجام تو نے دی
مظلومیت کو قوت اقدام تو نے دی
تو سنگ میل جادۂ ایماں ہے اے حسین
تو رفعت و جلالت انساں ہے اے حسین
تو رہنمائے منزل عرفاں ہے اے حسین
تو حامل مشیت یزداں ہے اے حسین
حق بین حق نواز و حق انداز تیری ذات
للہیت کا ذوق سرافراز تیری ذات
تیری نظر کا فیض بصیرت کی ہے سند
بس تیری رہبری کے اشارے ہیں مستند
جو کچھ ازل میں پایا رہے گا وہ تا ابد
تیری حد کمال ، کمال بشر کی حد
تو نے بدل دیا ہے خزاں کو بہار سے
کونین معتبر ہیں ترے اعتبار سے
اے وارث زمین و زماں جان بوتراب
ہے تیری ذات دہر میں شہکار انتخاب
پلٹایا ڈوبتا ہوا ایماں کا آفتاب
بدلی روش نہ تیری ہزار آئے انقلاب
ایسے ہیں نقش پا ترے راہ ثبات میں
جدے تڑپ رہیں ہیں جبین حیات میں
اے فاطمہ جلال طہارت کی آبرو
اے مرتضی کمال ، شجاعت کی آبرو
اے مصطفیٰ مثال ہدایت کی آبرو
اے امر ذوالجلال مشیت کی آبرو
وابستہ قدم ہیں طہارت کی منزلیں
احسان مانتی ہیں نبوت کی منزلیں
قول و عمل سے تیرے ہے تہذیب کا ئنات
ہر عہد ہر فضا میں ہیں تیرے تصرفات
ارماں رسول پاک کا ایمان کا ثبات
ہے تیری بات بات میں قرآن کی حیات
تو سربراہ سوز قیام و قعود ہے
تو قائدہ خلوص رکوع و سجود ہے
اک رات پہلے عرش پہ پہنچی نبی کی ذات
تیرے سفر کی بات بھی معراج کی ہے بات
تو ارتقا کی راہ میں تقدیر ممکنات
عہد آفریں ہے کتنی یہ تیری رجب کی رات
معراج مصطفے کا بھی جلوہ لئے ہوئے
تعمیر کربلا کا بھی نقشہ لئے ہوئے
حق سے سوال بیعت ظلم و جفا کی رات
دین و یقیں پہ حملۂ مکرو دغا کی رات
گھر میں وطن میں فقیہ صبر آزماں کی رات
پہلے پہل مدینہ میں وہ کربلا کی رات
عاشور کی سحر کا جو پیغام بن گئی
اگے بڑھی تو کوفہ بنی شام بن گئی
وہ رات جس کے حُسن کی تنویر کربلا
وہ رات جس کے درد کی تا ثیر کربلا
وہ رات جس کے خواب کی تعبیر کربلا
وہ رات جس کے عزم کی تصویر کربلا
جس کا جواب کرب و بلا وہ سوال رات
تاریخ کائنات کی وہ بے مثال رات
وہ رات جس میں بادہ عرفاں کی آگہی
وہ رات جس میں عزم شہیداں کی روشنی
وہ رات جس میں شام غریباں کی تیرگی
وہ رات ہے ماہ درخشاں کی زندگی
طے جس میں موت و زیست کا ہر مرحلہ ہوا
وہ رات جس میں فیصلہ کربلا ہوا
وہ رات جس میں صبر کے منظر میں دیدنی
وہ رات جس میں عزم کے جوہر ہیں دیدنی
وہ رات جس میں ضبط کے تیور ہیں دیدنی
وہ رات جس میں شکر کے پیکر ہیں دیدنی
زنجیر و طوق و نیزه و خنجر نظر میں ہیں
کیا طرفہ انقلاب کے منظر نظر میں ہیں
نیزه پہ اور سینہ اکبر پر ہے نظر
تیر اور گلوئے نازک اصغر پہ ہے نظر
تاراجی خیام کے منظر پہ ہے نظر
زینب کا سر بتول کی چادر پہ ہے نظر
ہے عصر و بعد عصر کی روداد سامنے
درد حیات سہنے کو سجاد سامنے
فریاد و آہ اشکوں کے طوفاں نظر میں ہیں
کہنہ عبا وداع کے عنواں نظر میں ہیں
کانوں کے ڈرسکینہ کے ارماں نظر میں ہیں
جیسا جہاد ویسے ہی ساماں نظر میں ہیں
غارت گری اسیری ہے سرور کے سامنے
کیا معر کے ہیں صبر کے پیکر کے سامنے
اقدام حق کے معتبر آغاز کے لئے
ذوق نگاه سعی خدا ساز کے لئے
اظہار و قوت حق اعجاز کے لئے
مہماں نوازی کر جانباز کے لئے
لطف و عطا وفیض کا جو ہر نظر میں ہے
رومال فاطمہ نگہ معتبر میں ہے
راہ عمل میں صبر و شجاعت ہے سامنے
حق کا خزانہ دین کی دولت ہے سامنے
اسلام سامنے ہے شریعت ہے سامنے
ہر ہر قدم پر حق کی مشیت ہے سامنے
پیش نظر نبی و عالق کا شعار ہے
قرآن ہے ادھر تو ادھر ذوالفقار ہے
ہجرت میں جو بچھا تھا وہ بستر بھی ساتھ ہے
رہوار بھی عصائے پیمبر بھی ساتھ ہے
روز مباہلہ کی وہ چادر بھی ساتھ ہے
وہ خیمہ غدیر کی حیدر بھی ساتھ ہے
روداد جس پہ روح امیں کی لکھی ہوئی
تاریخ جس پہ دین و یقیں کی لکھی ہوئی
قبضہ میں متحد سپر و تیغ مرتضی
بر میں لباس فقر رسالت مآب کا
سر پر اس ادا سے عمامہ بندھا ہوا
چہرہ ہے یا نبی و علی کا ہے آئینہ
لپٹی ہوئی ہے قدموں سے تقدیر دین کی
تصویر شاہکار ہے حق الیقین کی
ہر ہر ادا میں سیرتسیرت پیغمبراں لئے
راہ عمل میں حوصلہ امتحاں لئے
بچے لئے ضعیف لئے نو جواں لئے
یعنی وقار زیست کا اک کارواں لئے
ربط کمال عترت و قرآں لئے ہوئے
تعمیل ہر جہاد کا عنواں لئے ہوئے
کیا انقلاب لائے ہیں حالات میں حسین
حق کو رچا کے فکر و خیالات میں حسین
امکاں کی حد دکھا کے محالات میں حسین
اٹھے وہ عہد باندھ کے اس رات میں حسین
جس عزم بے مثال کا دفتر ہے کربلا
جس عہد لازوال کا منظر ہے کربلا
بیعت کرے یزید کی اور خاصہ خدا
یہ ذلت حیات ، شرافت ہے گی کیا
آساں بہت ہے خنجر و شہرگ کا مرحلہ
منصوبہ جہاد سر افراز کربلا
محفوظ کر کے دین کا منصب حسین نے
اس رات میں کیا ہے مرتب حسین نے
اک پاس کی نظر ہے سوئے قاسم حسیں
تاکید کے سخن میں ہے اکبر حزیں
اصحاب سے کلام محبت کے ہیں کہیں
مسلم سے مشورہ بھی کرتے ہیں شاہ دیں
عباس نامدار سے زینب سے بات ہے
ہاں یہ رجب کی رات قیامت کی رات ہے
وہ رات جس میں خون کے تھالے جھلکتے ہیں
رہ رہ کے دل میں خار الم کے کھٹکتے ہیں
وہ رات جس میں آہوں کے خنجر چمکتے ہیں
آنکھوں سے درد و داغ کے آنسوں سیکھتے ہیں
وہ شب ستم کا جس نے نشانہ بنا دیا
دورات جس نے ماں کی لحد سے چھڑا دیا
آثار کہ رہیں ہیں کہ واپس نہ آئیں گے
واقف ہے دل جو راہ میں صدمے اٹھا ئیں گے
جائیں جہاں بھی ساتھ یہ انکار جائیں گے
اس مرکز سکوں کو دوبارہ نہ پائیں گے
اشکوں میں درد و داغ کی دنیا بسائے ہیں
ماں کی لحد پہ آخری رخصت کو آئے ہیں
آتا تھا فاتحہ کو جو مرقد پہ بار ہا
بنت رسول آج وہ زائر ترا چلا
کچھ دن میں اب ہے خنجر و شہرگ کا مرحلہ
غربت ہے اور حسین کا مظلوم قافلہ
ہر سانس بن کے نیزہ دو خنجر اترتی ہے
کس سے کہیں جو دل پہ قیامت گزرتی ہے
آواز جیسے قبر سے آتی ہے بار بار
اے میرے دل کے چین مری روح کے قرار
اک قلب ناتواں پہ یہ ظلم وستم کا بار
تیری مصیبتوں پہ یہ مادر تری نثار
بے جرم و بے خطا پہ مصیبت یہ ڈھاتے ہیں مجھ ایسے گوشہ گیر کو ظالم ستاتے ہیں
تو اور مسافرت کے وہ آلام ہائے ہائے
یہ غم کی صبح ، درد کی یہ شام ہائے ہائے
یہ آفتیں یہ رنج پہ ہر گام ہائے ہائے
یہ علم تجھ پہ میرے خوش انجام ہائے ہائے
عالم وہ ہے کہ جیسے چھری لب پہ چلتی ہے
ماں تیری ہمرہی میں لحد سے نکلتی ہے
وہ سائیں سائیں کرتی ہوئی رات الاماں
شدت وہ درد و غم کی دو عالم کے درمیاں
وہ ڈوبتا لرزتا ہوا قلب ناتواں
راز و نیاز کے وہ سخن ، غم کی داستاں
گویا زبان حال سے نوحے یہ ہوتے تھے
ماں کی لحد سے لیٹے ہوئے شاہ روتے تھے
ہر سانس میں ہے شدت احساس کی جلن
نظروں میں ہے کھلا ہوا یا دوں کا اک چمن
وہ شفقتوں کی پیار کی تصویر خندہ زن
یاد آ رہے میں لطف و عنایت کے ہرسخن
دل میں وہ درد اٹھا ہے کہ جاں پر بن آئی ہے
چھٹتا ہے یہ مزار کہ ماں سے جدائی ہے
اتنے میں آئی زینب مضطر بصد بکا
بیساختہ زباں پر تھی یہ درد کی صدا
اماں خبر بولتی ہوں میں غم کی مبتلا
ملتی نہیں ہے بھائی کو میرے اماں کی جا
گھر لٹ رہا ہے کوچ کی ساعت قریب ہے
اماں بس اب اٹھو کہ قیامت قریب ہے
خود آپ جس کی دے کے گئیں تھیں مجھے خبر
در پیش ہے وہی مرے مانجائے کو سفر
بگڑے ہوئے ہیں دہر کے حالات سر بہ سر
بھیا کے ساتھ جاتے ہیں سب قصہ مختصر
قاسم کی خیر ہو علی اکبر کی خیر ہو
اماں دعا کریں کہ بھرے گھر کی خیر ہو
اک گوشہ گیر اور یہ درد و غم و الم
نانا کا کلمہ پڑھ کے نواسے پر ہیں ستم
اماں کہو پکارے کے یہ اسیر غم
لے دے کہ پنجتن میں ہے باقی بس ایک دم
ٹوٹے کبھی نہ اس مرے قلب زار کی
روشن رہے یہ شمع تمہارے مزار کی
لرزے میں ہے بقیع کی خاموش سی فضا
احساس کے ضمیر میں پیدا ہے زلزلہ
ہر سو ہے بزم چار عناصر میں تہلکہ
فرط الم سے ہوش کسی کے نہیں بجا
پیکان دردو غم ہیں کہ زینب کے بین ہیں
عالم وہ ہے کہ کرب سے گریاں حسین ہیں
فریاد پر بہن کے ہیں کس کشمکش میں شاہ
ہر سانس ایک ٹوٹے ہوئے دل کی ہے کراہ
زینب پہ گاہ ماں کی لحد پر کبھی نگاہ
ہمشیر سے سخن ہیں یہ باحالتِ تباہ
صدقے حسین تجھ پہ ہواے جان فاطمہ
قائم ہے تجھ سے منزلت وشان فاطمہ
زینب ترا جلال ہے عظمت حسین کی
زینب ہے تیرے ضبط میں جرائت حسین کی
تیرا سکون قلب ہے قوت حسین کی
تیرا خلوص شکر ہے سیرت حسین کا
تیری ہر اک نظر ترا انداز کربلا
تیرے عمل سے ہو گی سر افراز کربلا
مادر سے صبر و شکر کی دولت بھی مانگ لے
بلوے میں دے جو کام وہ قوت بھی مانگ لے
ہر اک قدم پہ ضبط کی بہت بھی مانگ لے
سر میرا کتے دیکھ یہ جرائت بھی مانگ لے
محفوظ تجھ سے ہو گا مفاد حسینیت
کرتا ہے سر تجھی کو جہاد حسینیت
پلٹے بہن کے ساتھ لحد سے امام دیں
وہ قید اور قتال کے دو پیکر یقیں
صبر و ثبات فاطمہ زہرا کے دو امیں
اک ساتھ خون روتے ہوئے دو دل حزیں
باد خزاں کا زور ہے زہرا کا پھول ہے
کتنا اداس آج مزار بتول ہے
بسمل کے درد کو دل بسمل سے پوچھئے
منزل ہے کیا یہ دور کی منزل سے پوچھئے
طوفاں کی بات حسرت ساحل سے پوچھئے
سبط نبی کے درد بھرے دل سے پوچھئے
کس طرح لے کے زخم یہ دل پر گئے حسین
ماں کا مزار چھوڑ کے کیوں کر گئے حسین
وہ خوں بھری سحر ہے مدینہ کی یادگار
رستے پہ جب اجل کی چلا دیں کا تاجدار
اسلام کی زباں پہ ہے فریاد بار بار
اس ظلم بے دریغ پہ قرآن ہے بیقرار
ہر سو سے آ رہی ہے صدا شور وشین کی
ہے تربت رسول پہ مجلس حسین کی
سُن لو کہ میرا دین ولائے حسین ہے
یہ ذکر بھی جہاد برائے حسین ہے
دل میں حسین لب پہ صدائے حسین ہے
یہ حکمت کلام عطائے حسین ہے
میری زباں ہے اور ہے آواز کربلا
بانوؔ یہ مرثیہ بھی ہے اعجاز کربلا
شاعرۂ اہلبیت: بانوؔ سیدپوری
حوالہ:کتاب-تنویرِ سخن | جلد ٤
باب اوّل طلب بیعت
نوٹ: اہلبیت کی مدح میں کہے گئے کوئی بھی اشعار جو اس ویبسائٹ پر موجود نہ ہوں شامل کرنے کے لئے ہم سے رابطہ کریں۔
Contact Us: husainiclips@gmail.com